courtesy:www.bbc.com/urdu

چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے مغربی صوبے شنگ جیانگ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم ایک سوچالیس افراد ہلاک اور آٹھ سو زخمی ہوگئے ہیں۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ژنوا کے مطابق اتوار کے روز شنگ جیانگ صوبے کے شہر اورمچی میں ہونے والے نسلی تشدد میں کم از کم ایک سو چالیس افراد ہلاک جبکہ آٹھ سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔

ہنگامے ان اطلاعات کے بعد شروع ہوئے کہ پچھلے ماہ ملک کے جنوبی شہر شوہگان میں ہن نسل کے چینی باشندوں نے اوغر باشندوں پر اس وقت حملے شروع کر دیئے جب ایک شخص نے انٹرنیٹ پر ایک پیغام لکھا کہ اوغر باشندوں نے ایک نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی کی ہے۔

پولیس کا کہنا کہ انٹرنیٹ پر لکھے گئے ’جھوٹے‘ پیغام کے بعد پرتشدد کاررائیوں شروع ہوگئیں جن میں دو اوغر باشندے ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔

شنگ جیانگ کی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ ہنگاموں کے پیچھے امریکہ میں مقیم اوغر علیحدگی پسندوں کی رہنما ربیعہ قدیر ہیں۔

جلاوطن اوغر کانگریس کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ آج اوغر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ایک پرامن جلوس کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

چین کی خبررساں ادارے ژینوا نے کہا کہ پولیس نے شنگ جیانگ صوبے کے شہر اورمچی میں امن بحال کر دیا ہے۔

عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز کئی سو افراد نے شنگ جیانگ میں مظاہرے شروع کیے جن کی تعداد بعد میں ایک ہزار تک پہنچ گئی۔

سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے چاقو، لاٹھیاں اور پتھر اٹھا رکھے تھے جس سے انہوں نے کئی سو گاڑیوں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا۔ شنگ جیانگ حکومت کے نیوز ڈائریکٹر وونانگ نے الزام لگایا ہے کہ مظاہرین نے دو سو ساٹھ گاڑیوں اور دو سو گھروں کو نقصان پہنچایا۔

رات سے اورمچی شہر میں کرفیو نافذ ہے۔

شنگ جیانگ میں اوغر مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے جن میں سے بہت سے لوگ چین سے آزادی کے خواہاں ہیں۔چین میں اولمپک گیمز کے انعقاد سے پہلے جب وہاں سے اولمپک مشعل گزری تھی تو شنگ جیانگ میں تشدد کے واقعات ہوئے تھے جن میں سولہ چینی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔