میں چھوٹا تھا مگر اک سرو قامت قد میں رہتا تھا
مرا دشمن سمندر ہو کے بھی ایک حد میں رہتا تھا
ہم اک مٹی کے بیٹے تھے مگر ملنے سے قاصر تھے
میں اس سرحد میں رہتا تھا، وہ اس سرحد میں رہتا تھا
مرا اس سے بھی اک مدت رہا ہے پیار کا رشتہ
عدو میرا مرے یاروں کے خال و خد میں رہتا تھا
فضا کی سرد مہری نے اسے بھی ختم کر ڈالا
وگرنہ اک گھنا سایہ مرے برگد میں رہتا تھا
مرے حصے میں مرکر بھی نہیں میری زمیں آئی
کوئی مجھ سے بہت پہلے مرے مرقد میں رہتا تھا
Bookmarks