خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں
اُس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں

غم نہ ہوتا جو کھل کے مرجھاتے
غم تو یہ ہے کہ ہم کھلے بھی کہاں

خوش ہو سینے کی ان خراشوں پر
پھر تنفس کے یہ صلے بھی کہاں

آگہی نے کیا ہو چاک جسے
وہ گریباں بھلا سلے بھی کہاں

اب تامل نہ کر دل ِ خود کام
روٹھ لے، پھر یہ سلسلے بھی کہاں

خیمہ خیمہ گزار لے یہ شب
بامداداں یہ قافلے بھی کہاں

آو، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں