عید میلاد النبی ﷺ عالمی تہوار



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


اللہ تعالٰی ہمارا خالق مالک اور معبود حقیقی ہے، وہی ہمارا رب (پالنے والا‘ پروردگار) ہے۔ اس نے اپنی ذات و صفات اور اپنے اسماء و افعال (ناموں اور کاموں) میں کسی کو کسی طرح شریک نہیں کیا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم کسی کو کسی طرح بھی اللہ تعالٰی کا شریک یا اس کی مثل نہ ٹھہرائیں کیونکہ کوئی بھی ذاتی اور حقیقی طور پر خود سے کوئی کمال نہیں رکھتا، نہ ہی کوئی خود سے معرض وجود میں آیا بلکہ یہ تمام کائنات جو کچھ اس میں ہے وہ سب اللہ تعالٰی ہی کا (خلق) پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں انسان کو عزت اور بزرگی عطا کی اور اسے شرف مخلوقات بنایا‘ اسے عقل و شعور عطا کیا۔ انسانوں میں سب ہر لحاظ سے یکسا نہیں، بعض کو بعض پر فضیلت و مرتبت حاصل ہے۔ اندھا اور نابینا اور جاہل اور عالم، سچا اور جھوٹا برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پاک اور پلید ہرگز برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مومن اور کافر برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ محققین کے مطابق کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالٰی کے اسماء و افعال اور صفات و ذات کے مظاہرے کے طور پر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کے نام زیادہ ہیں تو اس کے مظاہر بھی زیادہ ہیں افعال زیادہ ہے تو اس کے مظاہرہ بھی اس قدر ہیں اللہ کریم کی صفات بہت ہیں تو ان کے مظاہر بھی بہت ہیں مگر اللہ تعالٰی کی ذات ایک واحد (حقیقی) ہے تو اس کا مظہر کامل بھی ایک ہے اور وہ اس کا حبیب مقصود کائنات، جان کائنات (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جن کے لئے خود اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ اگر اس ہستی کو نہ بناتا تو میں خود کو بھی ظاہر نہ کرتا اور کچھ بھی نہ بناتا۔ یعنی رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو کچھ بی نہ ہوتا۔ اس ارشاد ربانی سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام کائنات دراصل حضور اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ و طفیل ہے۔ خود نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے نور سے ہوں اور باقی تمام مخلوق میرے نور سے ہے یعنی اگر اللہ کا نور نہ ہوتا، تو میں نہ ہوتا اور میں نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ہمارے نبی پاک آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی شان خالقیت ہی کی نہیں بلکہ اللہ کی ذات کی بھی سب سے بڑی اور کامل دلیل ہیں اسی لئے قرآن میں انھیں برہان ربی فرمایا گیا ہے۔ اہل علم بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دلیل کی عمدگی اور پختگی اور درستی بلاشبہ دعوٰی کی درستی اور پختگی کی ضمانت ہوتی ہے اور دلیل کا نقص دعوٰی کے نقص کو ظاہر و ثابت کرتا ہے یوں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا جانے والا ہر کمال دراصل اللہ تعالٰی کے کمالات کی دلیل و برہان ہے تاکہ دیکھنے سننے والے یہ جان لیں کہ جس کی مخلوق اور عبد مقدس کی یہ شان ہے خود اس رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا ہر آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہو گا‘ اسی طرح اللہ پاک کی شان خالقیت کے صحیح اور کامل رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں جب کے باقی کسی اور کے لئے یہ وعدہ مرکوز نہیں اور عام مخلوق کے لئے “ہر کمالے راز والے“ کی کہاوت مشہور ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے یا ہر صاحب کمال کو زوال ہے اور ہمارے لئے یہ تعلیم ہے کہ ہم زوال نعمت سے بچاؤ اور تحفظ کی دعاء کیا کریں۔
ہمارے رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی خلقت تمام جہانوں بلکہ تمام کائنات سے پہلے ہوئی جس کے بارے میں صحیح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ ہماری رہنمائی کرتا ہے اور نبی پاک کی ولادت تمام انبیاءکرام کے آخر میں ہوئی ہو وہ خلق کے لحاظ سے اور اول اور بعثت (ظہور) کے لحاظ سے آخر ہیں، رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت محرم یا حرمت والے دیگر مہینوں یا ماہ رمضان میں ہوئی۔ اور نہ ہی مختلف ادیان و اقوام کے نزدیک اہم ہفتے کے دیگر ایام میں ہوئی اس لئے کہ ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو ماہ ایام اور زمان و مکان سے شرف (بزرگی) نہیں ملا بلکہ جس کسی کو جو کوئی شرف اور فضیلت ہے وہ نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ مشہور اسکالر مولانا کاثر نیازی اپنی تحریر میں نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں “اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے لئے نصیحت، ان کے دلوں کے لئے شفاء اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہونے والی مقدس اور متبرک ہستی کو عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں شریف آوری کوئی عام یا معمولی واقعہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین اور اہم ترین واقعہ ظہور پذیر ہوا وہ جمیع نوع انسانی کے لئے ایک یادگار دن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بہ نظر غائرد دیکھا جائے تو عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی تمام عیدوں کا مبداء ہے۔ آں حضور کا ظہور پرنور ہوا تو خلق خدا کو خدائے تبارک وتعالٰی کی ہستی کا شعور حاصل ہوا۔ توحید کا ادارک اور وحدانیت کا اقرار احکام خداوندی کی تعلیم عبادات کی تفہیم سب آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مقدس کی مرہون منت ہیں۔ رمضان شریف کی فضیلتیں آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہم پر ظاہر ہوئیں اور انہی فضیلتوں سے متمتع ہونے کے بعد ہم عیدالفطر کی مسرتوں کے مستحق ہوئے اسی طرح آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے ہی ہمیں حج اور قربانی کے طریقے سکھائے جو کی بناء پر ہمیں عیدالاضحٰی کی خوشیاں نصیب ہوئیں‘ پس یوم مبارک عیدین سعیدین کی تقریبات کا مبداء ہے وہ تو کہیں زیادہ مسرت و ابتہاج کا دن ہے اور وہ ہی تو ایسا دن ہے جسے ہم سب سے بڑی عید کا دن کہہ سکتے ہیں“ مولانا کی اس واضح اور بصیرت افروز تحریر میں یہ بھی ہے کہ “پس اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ انعامات خداوندی کے نزول پر شکر واجب ہے تو یقیناً ان نعمتوں کو ہم تک پہچانے والے کی آمد پر بھی شکر لازم ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ ان نعمتوں کا پہنچانے والا محض ایک قاصد یا پیام رساں نہیں بلکہ خود بھی مجسم رحمت ہے اور مجسم رحمت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لٰہذا اس افضل ترین نوع بشر کے یوم ولادت پر اظہار مسرت کرنا اور آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی مدح و توصیف بیان کرنا یقیناً ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔“ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا یوم ولادت “پیر“ ہے اور ماہ ولادت “ربیع الاول“ ہے۔ شمسی و عیسوی تقویم کے حساب سے قطعی و یقینی طور پر کوئی تاریخ اب تک بیان نہیں کی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہجری تقدیم ہی اسلام اور مسلمان میں رائج ہے عہد رسالت میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا اور اسے قانونی اور سرکاری طور پر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں نافذالعمل قرار دیا گیا۔ اسلامی ممالک میں ہجری تقویم کے مطابق اسلامی تہوار منائے جاتے ہیں کیونکہ وہ تمام تہوار اسی تقویم سے وابستہ ہیں لیکن ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس تقویم سے قیام و نفاذ سے پہلے کا