گناہ گاروں سے نفرت مت کیجیے
پہلا حصہ کسی کو گناہ پر عار دلانے کا وبال:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے گناہ پر عار دلائے اور گناہ کا طعنہ دے جس سے وہ توبہ کرچکا ہے تو یہ طعنہ دینے والاشخص اس وقت تک نہیں مریگا جب تک وہ خود اس گناہ میں مبتلا نہیں ہوجائے گا۔
مثلآ ایک شخص کے بارے میں آپ کو پتہ چل گیا کہ فلاں گناہ کے اندر مبتلا تھا،مبتلا ہواہے،اور آپکو یہ بھی پتہ ہے کہ اس نے توبہ کرلی ہے تو جس گناہ سے وہ توبہ کرچکاہ ےاس گناہ کی وجہ سے اسکو حقیر سمجھنا،یا اسکو عار دلانا یا اس کو طعنہ دینا کہ تم فلاں شخص ہو اور فلاں حرکت کیا کرتے تھے،ایسا طعنہ دینا خود گناہ کی بات ہے،اسلیے کہ جب اس شخص نے توبہ کرکے اللہ تعالی سے اپنا معاملہ صاف کرلیا اور توبہ کرنے سے گناہ صرف معاف نہیں ہوتا بلکہ نامہ اعمال سے وہ عمل مٹا دیاجاتاہے ،تو اب اللہ تعالیٰ نے تو اسکا گناہ نامہ اعمال سے مٹادیالیکن تم اسکو اس گناہ کی وجہ سے حقیر اور ذلیل سمجھ رہے ہو،یا اسکو طعنہ دے رہے ہو اور اور اسکو برا بھلا کہہ رہے ہو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت سخت ناگوار ہے۔


http://www.nazmay.com/


دوسرا حصہ:گناہ گارایک بیمار کی طرح ہے!
یہ تو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ اس نے گناہ سے توبہ کرلی ہے،اور اگر پتہ نہیں ہے کہ توبہ کی ہے کہ نہیں،لیکن ایک مومن کے بارے میں احتمال تو ہے کہ اسے نے توبہ کرلی ہوگیی یا آءیندہ کرلے گا؛اس لیے اگر کسی نے گناہ کرلیا اور آپ کو توبہ کرنے کاعلم بھی نہیں ہے 'تب بھی اس کو حقیری سمجھنے کا کوءی حق نہیں ہے 'کیاپتہ کہ اس نے توبہ کرلی ہو۔یادرکھیے،نفرت گناہ سے ہونی چاہیے،گناہ گار سے نہیں،نفرت معصیت سےاورنافرمانی سے ہے،لیکن جس شحص نے معصیت اور نافرمانی کی ہے اس سے نفت کرنا حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھایا۔بلکہ گناہ گار ترس کھانے اور رحم کے قابل ہے کہ وہ بے چارہ ایک بیماری کے اندر مبتلا ہے ،جیسے کوءی شخص جسمانی بیماری کے اندر مبتلا ہو تو اب اس کی بیماری سے نفرت ہوگی،لیکن کیا اس بیمار سے نفرت کروگے؟کہ چونکہ یہ شخص بیمار ہے اس لیے نفرت کے قابل ہے؟،ظاہر ہے کہ بیمار کی ذات قابل نفرت نہین ہے،بلکہ اسکی بیماری سے نفرت کرو۔اسکو دور کرنے کی فکر کرو،اسکے لیے دعاکرو،لکین بیمار نفرت کے لاءق نہیں،وہ تو ترس کھانے کے قابل ہے کہ یہ بیچارہ اللہ کا بندہ کس مصیبت کےاندر مبتلا ہوگیا۔
از مفتی تقی عثمانی


http://www.nazmay.com/