چاند کی تسخیر کے بارے میں چند مغالطے

ایسے میں جب کہ دنیا بھر میں چاند پر پہلے انسانی قدم کی چالیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے،بعض حلقے چاند کی تسخیر پر سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔ شکوک وشبہات کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ 20 جولائی 1969ء کو اسی وقت سامنے آنا شروع ہوگئے تھے جب دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر نیل آرم سٹرانگ اور بز ایلڈرن کے چاند پر اترنے کے مناظر براہِ راست دکھائے جارہے تھے۔ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے چند اہم اعتراضات کیا ہیں اور فلکیات کے ماہرین ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔

1۔ جب خلاباز چاند پر امریکی پرچم لگا رہے تھے تو وہ لہرا رہا تھا جب کہ چاند پر تو ہوا ہے ہی نہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پرچم ایک نازک سی المونیم کی سلاخ کے ساتھ نصب کرکے اس پول کے ساتھ لگایا گیا تھا جسے چاند کی سطح میں گاڑھنا تھا۔ سلاخ لگانے کا مقصد یہ تھا کہ پرچم کھلا رہے کیونکہ چاند پر ہوا کی عدم موجودگی میں وہ کھلی حالت میں نہیں رہ سکتاتھا۔جب پرچم کے پول کو چاند کی سطح میں گاڑھا جارہا تھا تو اس وقت المونیم کی سلاخ میں ہلکی سی تھرتھراہٹ پیدا ہوئی۔چونکہ چاند کی کشش ثقل زمین کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس لیے وہ تھرتھراہٹ پول نصب کیے جانے کے کچھ دیر بعد بھی جاری رہی۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ گویا پرچم ہوا سے لہرا رہا ہے۔

2۔ چاند کی سطح پر کھڑے ہوکر اپالو کے خلابازوں نے جو تصویریں کھینچی تھیں، ان میں کہیں بھی ستارے دکھائی نہیں دے رہے تھے جب کہ پس منظر میں سیاہ آسمان دکھائی دے رہا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند گاڑی اس وقت اتری تھی جب قمری حساب سے دن کا وقت تھا اور سورج پوری طرح روشن تھا۔چنانچہ اس وجہ سے تصویر کھینچنے کے لیے کیمرے کے شٹر کی رفتار بہت زیادہ رکھی گئی تھی تاکہ کیمرے کے اندر کم سے کم روشنی داخل ہو اور زیادہ فاصلے پر واقع چیزوں کی تفصیلات سے گریز کیا جائے۔چاند پر اگرچہ ستارے کھلی آنکھ سے تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن وہ اتنے روشن نہیں ہوتے کہ کیمرے کی اس سیٹنگ پر ان کی تصویریں کھینچی جاسکیں۔

3۔ چاند کی سطح پر اترتے وقت چاند گاڑی کی جو تصویریں کھینچی گئیں تھیں، ان میں اس جگہ پر کوئی گڑھا دکھائی نہیں دے رہا تھا جہاں چاندگاڑی اتری تھی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ چاندگاڑی ایک چٹان پراتری تھی جس پر گرد کی ایک باریک تہہ تھی۔ اس لیے وہاں پر گڑھا پڑنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ جگہ نسبتاً کم سخت ہوتی تو بھی چاند کی سطح پر زمین کے مقابلے میں کشش ثقل کم ہونے کی وجہ سے اس جگہ پرچاند گاڑی کے اترتے اورپرواز کے وقت سطح پر پڑنے والا دباؤ زمین کے مقابلے میں بہت معمولی ہوتا ہے۔

4۔ چاند گاڑی کا وزن 17 ٹن تھا، لیکن پھر بھی چاند کی سطح پر اس کا کوئی نشان نہیں پڑا۔جب کہ اس کے قریب ہی خلابازوں کے قدموں کے نشان ریت پر صاف دکھائی دے رہے تھے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ چاند گاڑی اترنے کے بعد ایک سخت چٹان پر پوری طرح ٹک گئی۔چاند کی سطح پر مٹی کی ایک باریک تہہ ہے۔ چاند گاڑی کے اترتے وقت سطح پر ہلکا سا جھٹکا لگنے کے بعد اڑنے والی گرد فوراً واپس بیٹھ گئی۔ اور جب خلابازوں نے چاند کی سطح پر اپنی چہل قدمی شروع کی تو ان کے قدموں کے نیچے وہی اڑ کر سطح پر بیٹھی ہوئی مٹی موجو د تھی۔جس کی وجہ سے تصویروں میں ان کے قدموں کے نشان ظاہر ہوئے۔

5۔ چاند پر جہاں نہ تو نمی ہے، نہ ہی کوئی فضا ہے اور نہ ہی زیادہ کشش ثقل ہے، پھر بھی اس کی مٹی پر قدموں کے نشان غیر متوقع طورپر بہت اچھی طرح کیوں محفوظ ہوگئے گویا وہ کسی گیلی ریت پر بنے ہوں؟

ماہرین کہتے ہیں کہ چاند کی سطح پر ہوا کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ چاند کی باریک خشک مٹی پر قدموں کے جو نشان پڑیں گے، وہ اس طرح غائب نہیں ہوں گے جس طرح کہ زمین پرایسے ہی نشان ہوا سے غائب ہوجاتے ہیں۔

6۔ جب چاند گاڑی ایگل نے چاند کی سطح پر سے پرواز کی تو اس کے راکٹ سے کوئی بھی شعلہ نکلتا دکھائی نہیں دیا۔جب کہ راکٹ کے اڑتے ہوئے اس میں سے شعلہ ضرور نکلتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ چاندگاڑی کے راکٹ انجن میں ایک خاص قسم کا ایندھن استعمال کیا گیاتھا جو ہائیڈرا زین (hydrazine)اور ڈائی نائٹروجن ٹیٹرو آکسائیڈ(dinitrogen tetroxide) کا آمیزہ تھا۔ یہ ایندھن جب جلتا ہے تو اس کا شعلہ دکھائی نہیں دیتا۔

7۔ چاند کی سطح پر چہل قدمی کرتے ہوئے خلابازوں کی فلم کو اگرآپ تیز رفتار سے چلائیں تو وہ ایسا دکھائی دیتا ہے گویا اس کی فلم بندی زمین پر کی گئی تھی اور پھر اس فلم کی رفتار کم کردی گئی تھی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بظاہر یہ بات کچھ درست دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔
8۔ خلابازوں کو چاند کے اس سفر میں زمین کے اردگرد واقع ایک انتہائی تابکار دائرے وان ایلن(Van Allen) سے گذرنا پڑا جہاں سے ان کا زندہ بچ کر زمین پر واپس آجانا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اعتراض زیادہ تر ایک روسی خلاباز کے دعویٰ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز بہت کم وقت میں اس دائرے سے گذرا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ خلاباز،ایک محفوظ خلائی جہاز کے اندر موجودتھے، اس لیے ان پر تابکاری کے اثرات بہت ہی معمولی ہوئے ہوں گے۔

9۔ چاند سے لائے جانے والے پتھر بالکل انٹارکٹیکا میں سائنسی تحقیقات کے دوران اکٹھے کیے جانے والے پتھروں جیسے ہیں؟

ماہرین کہتے ہیں کہ زمین پر چاند کے کچھ پتھر ملے ہیں لیکن وہ سب کے سب خشک اور جلی ہوئی حالت میں ہیں اور ان پر آکسیجن کے اثرات موجود ہیں، جیسا کہ شہاب ثاقب کے زمین کے مدار میں داخل ہونے کے وقت ہوتا ہے۔ ارضیات کے ماہرین مکمل یقین کے ساتھ یہ تصدیق کرچکے ہیں کہ اپالو 11 کے ذریعے لائے گئے پتھر لازمی طور چاند ہی سے لائے گئے ہیں۔

10۔ چاند کی سطح پر تمام کے تمام چھ مشن نکسن انتظامیہ کے دور میں ہوئے۔ 40 سال کے دوران ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیز تر ترقی کے باوجود کسی اور قومی لیڈر نے کبھی بھی خلابازوں کے چاند پر اترنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔

نیل آرم سٹرانگ چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرنے کے بعد


ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اس حوالے سے اٹھایا جانے والا سب سے عام اعتراض ہے۔ کیونکہ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف رچرڈ نکسن کے دورِصدارت پر انگلی اٹھانا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اپالو کی چھ پروازوں کے بعد چاند کو سرکرنے کی دوڑ جیتی جاچکی تھی اور اس مہم کے لیے فنڈز ختم ہوگئے تھے۔ سابق سویت یونین کو اس دوڑ میں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور دونوں جانب کے سیاست دانوں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ زمین کے نچلے مدار کےمشن، چاند پر جانے کی نسبت فوجی اور تجارتی لحاظ سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن چاند کی تسخیر کے بارے میں غالباً سب سے دل چسپ اعتراض کسی شخص نے یہ کیا تھا کہ یہ لوگ چودھویں کے چاند پر گئے تھے، ہم تو جب مانیں گے اگر پہلی کے چاند پر اتر کر دکھائیں۔

ہمارا خیال ہے کہ ناسا کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

ماخذ
http://www1.voanews.com/urdu/news/he...-51422632.html

http://www.dw-world.org/dw/article/0,,4502459,00.html