اسلام جناب کیسے ہے آج میں ایک تحریر لیکھ رہا ہوں آپ سب نے رائے دینی ہیں کہ مین نے کیسا لیکھا ہے تو شروع کرتا ہون


عنوان وہ کون تھا

میں اپنے دوست کے ساتھ ایک شام درخت کے سایہ میں بھٹا شاعری کے مطلق بات چیت کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی ہمارئے پاس آیا آ کر میرے پاس بیٹھ گیا اور تلاوت شروع کی اس کے باد بہت اچھی اچھی اسلامی باتیں کی تو میں حیران ہو گیا کوں کے وہ شکل سے ایسا نہیں لگتا تھا اس کے بعد اس نے اپنی بات کا آغاز کیا وہ بولا میری امی بہت سخت بیمار ہے ان کو دل کی بیماری ہے آپ بھائی میری مدد کرئے مجھے کچھ پیسے دے مین نے ان کے لیے دوا لینی ہے مین نے سوچا ہو سکتا ہے یہ سچ بول رہا ہو لیکن اس پر یعقین نہین آیا مین نے اس کو کہا آپ کی امی جی کہا ہے تو بولا میری آمی جی گھر مین ہے پھر میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا جس کا نام وقاص ہے تو وقاص میرے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا میں نے اس آدمی سے پوچھا آپ کا گھر کہا ہے تو کہنے لگا خیابان میں میں ہے میں نے وقاص کی طرف دیکھتے ہوے کہا چلو ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں ایک تو آپ کی امی جی سے بھی میل لے گے اور ان کو دوا بھی لے دے گے میرا اتنا کہنا تھا کے وقاص نے کہا چلو جی چلو جلدی چلتے ہیں یہان میں کچھ وقاص کے بارئے مین بتا تا جاوں وقاص ایف اے کا طالب علم ہے اور بہت ہی زہین ہے اس کو اسطرح کے کام کرنے مین بہت مزا اتا ہے وقاص کو بہت تجسس تھا اس لے مین نے یہ فیصلہ کیا جب ہم اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو تو وہ ہم کو پیرودائی کے راستے لے کر جا رہا تھا مین نے اس کو ایک جگہ روکا اور پوچھا کہ خیابان کہا ہے تو پیرودائی کی طرف اشارا کر کے کہنے لگا ادھر تو میں نے پوچھا کے پیرودائی کس طرف ہے تو کہنے لگا مجھے پتا نہیں ہے میں یہاں نیا نیا ہوں اس لے جگہ کا نام پتہ نہیں ہے لیکن رستہ پتہ ہے آپ میرے ساتھ چلے میں آپ کو اپنی امی سےملاتا ہون مجھے اس پر کچھ شک ہوا کے یہ آدمی ہم کو دوکھا دے رہا ہے میں نے سوچا اس سے جان چھوڑا لیتے ہیں لیکن وقاص نے کہا نہین اس کے گھر جائے گے اور پتہ کرئے گے کہ اس کی امی کی کیا حالت ہے پھر چلتے چلتے ہم پیر ودائی کے پاس پونچھے تو ایک آدمی ہمارے پاس سے گزرا تو اس نے اس کے ساتھ آنکھو ں آنکھوں میں کچھ بات کی مجھے اور زیادہ شک پر گیا مین نے اس سے پوچھا تم اس آدمی کو جانتے ہو کہنے لگا نہین مین تو نہیں جانتا مین نے کہا تو پھر اس نے تم کو اشارا کیون کیا ہے بولا مجھے کیا پتہ اتنے مین وقاص بولا یہ میرےجانے والاہے حالہ کے وہ وقاص کے جانے والا نہین تھا جب ہم پیرودائی کے ایک علاقہ مین پونچھے تو وہ بہت اجنبی تھا میرے لے کیون کہ مین کبھی اس طرف نہین آیا تھا مین نے اس سے کہا کہاں ہے گھر تو وہ ایک گلی مین ہم کو لے گیا مین تو ڈر گیا تھا لیکن وقاص کا تجسس کم نہین ہوا تھامین نے اس علاقے کے ایک آدمی سے پوچھا آپ اس کو جانتے ہو تو کہنے لگا نہین مین تو نہین جانتا اور مین اس کو اپنے محلہ میں پہلے دفعہ دیکھ رہا ہون مین نے اور وقاص نے اس کوپکڑ لیا اور بولے کہا ہے گھر جلدی بتاوں رونہ بہت مارئے گے وہ چلدی سے بولا جی اس گلی مین بابا لطیف رہتا ہے پوچھ لو اس آدمی سے مین اس کے گھر رہتا ہوں جب اس آدمی سے پوچھا تووہ آدمی بولا ہان جی بابا لطیف رہتا ہے اس گلی مین اس کا ہی کوی مہمان ہو گا اس حالت کے مہمان آتے ہے اس کے پھر ہم اس گھر مین پونجھے جس گھر مین وہ رہتا تھا ہم نے اندر جانے سے انکار کیا اور کہا اپنی امی کو اور ان کی پرچی جو ڈاکٹر نے دوا کے لیے لکھ کر دی ہے وہ لے آون وہ اندر گیا تو اس کے ساتھ ہی ایک عورت اس گھر سے نکل کر دوسرے گھر گی اور پھر واپس آگی اس کے بعد وہ آدمی واپس آیا اور کہنے لگا اپ اندر آجاون امی جی کو ہسپتال لے کے گیے ہوئے ہیں اور پرچی بھی ساتھ لے کر گے ہین مین نے اور وقاص نے اس کو پکڑا اور مارا بھی اور اس کو کہا ہم ہسپتال جاے گے تمہارئے ساتھ اس دوران بہت سے لوگ کھڑے ہو گے اور دو تین نے ہم کو کہا چھوڑو یار یہ تو ہے ہی ایسے آپ جاو یہ بہت چھوٹا ہے مجھے شکل سے اور گفتگو سے وہ بھی اس کے ساتھی نظر آئے میں تو معاملہ سمجھ گیا تھا لیکن وقاص اس کو نہین چھوڑ رہا تھا اس وجہ سے وہ جو باقی دو آدمی تھے وہ بھی ہمارئے ساتھ الج گے اور معامہ لڑائی کی طرف جانے لگا مین نے وقاص بڑی مشکل سے روکھا اور واپس آئے
لیکن مین سوچتا ہوں ہو کوں تھے کیا اس طرح ہی دوسروں کا حق کھاتے رہے گے یہ لوگ