سافٹ ویر چوری میں زمبابوے دنیا میں اول نمبر پر ہے

واشنگٹن ۔ سافٹ ویئر کی چوری کی نگرانی سے متعلق ادارے بزنس سافٹ وئیر لائنس نے کہاہے کہ زمبابوے ان ممالک میں شامل ہے جہاں 2008ء میں ساف وئیر کی چوری میں اضافہ ہوا۔ گروپ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمبابوے میں استعمال ہونے والے 92 فی صد سافٹ ویئر چوری شدہ ہیں۔ جب کہ 2007ء میں یہ شرح 91 فی صد تھی۔انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے وزیر نیلسن چامیسا نے اس کی وجہ زمبابوے کی خراب معاشی صورت حال کوقرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت کے پاس قانونی سافٹ ویئر خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کاپی رائٹ سے متعلق ملکی قوانین نظر ثانی کے عمل سے گذر رہے ہیں جس کے بعد ان جرائم کے مرتکب افراد سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بزنس سافٹ ویئر الائنس کے چیئر مین ڈیل واٹرمین کے حوالے سے مقامی اخبار فنانشل گزٹ میں کہا گیا ہے کہ سافٹ ویئر کی چوری سے ہرسال زمبابوے کی معیشت کو محصولات کی مد میں 40 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔زمبابوے کے بعد آرمینیا، بنگلہ دیش اور جارجیاان ممالک میں شامل ہیں جہاں سافٹ ویئر چوری کی شرح 90 فی صد ہے۔ افریقہ کے سب صحارن علاقے میں زمبابوے کے بعد سافٹ ویئر چوری میں 83 فی صد کے ساتھ دوسرا نمبر کیمرون کا ہے ۔گروپ نے اپنی رپوٹ میں کہا ہے کہ پائریسی سے عالمی سطح پر صرف سافٹ ویئر انڈسٹری کو ہی نقصان نہیں اٹھانا پڑتا بلکہ کسی ملک میں ایک ڈالر کا چوری شدہ سافٹ ویئر فروخت ہونے سے وہاں کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سروس اور تقسیم کنندگان کمپنیوں کو اس کے بعد تین سے چار ڈالر کا نقصان اٹھاناپڑتا ہے۔