غزل
(سرور عالم راز سرور)


سنا ہے اربابِِ عقل و دانش ہمیں یوں دادِ کمال دیں*گے
"جنوں کے دامن سے پھول چن کر خرد کے دامن میں ڈال دیں*گے!"


ذرا بتائیں کہ آپ کب تک فریبِ حسن و جمال دیں گے؟
سکوں کےبدلہ میں تحفہء*غم ، قرار لے کے ملال دیں*گے!


ہم اپنے دل سے خیالِ دیر و حرم کو ایسے نکلال دیں گے
تمام اجزائے کفرو ایماں بس ایک سجدہ میں ڈھال دیں گے


جنہیں تمیز وفا نہیں ہے، جنہیں شعورِ جنوں نہیں ہے
بھلا وہ کس طرح راہِ غم میں حسابِ ِ ہجر و وصال دیں گے؟


زباں کی رنگیں نوائیوں سے، بیاں کی جلوہ طرازیوں سے
نگارِ اردو کو ہر گھڑی ہم خراجِِ فکر و خیال دیں*گے


تمہیں ہے کیوں اشک غم پہ حیرت؟ یہی تو ہوتا ہے عاشقی میں
سوال اگر دلفگار ہوگا، جواب بھی حسب حال دیں*گے


خمار بادہ، خرام آہو، نگاہِ نرگس، نوائے بلبل
کسی نے ان کا پتہ جو پوچھا تو ہم تمہاری مثال دیں*گے


وہ ایک لمحہ دمِ جُدائی جو زیست کا اعتبار ٹھہرا
اس ایک لمحہ نے جو دیا ہے کہاں وہ سب ماہ و سال دیں*گے