ضیاء القرآن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالیمن الرحمن الرحیم مالک یوم الدین و ازکی الصلوات واطیب التسلیمات و اسنی التحیات علی حبیبہ المعظم ونبیہ المکرّم سیّد ولد آدم مولانا محمد المبعوث رحمۃ للعالمین قائد الغر المحجلین وعلٰی آلہ الطیبین واصحابہ المکرّمین اللھم ایّاک نعبد وایّاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین اٰمین بحق طٰہٰ ویٰس ۔
رحمن و رحیم پرودگار نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لئے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قلب منیر پر نازل فرمایا ، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں ،کہنے کو تو یہ ایک کتاب ہے اور کتابیں ان گنت ہیں ، بڑی ضخیم ،بڑی ادق ، بڑی دل آویز لیکن اس کتاب کی شان ہی نرالی ہے یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب جہاں تاب بھی ، جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجا ہیں ، اس کا حسن و جمال قلب و نگاہ کو یکساں متاثر کرتا ہے ، اس کی تجلیات سے دنیا و عقبٰی دونوں جگمگارہے ہیں ، اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے ، اس کاپیغام اگر عقل و خرد کو لذّت جستجو بخشتا ہے تو قلب و روح کو بھی شوق فراواں سے مالا مال کرتا ہے ، اس کی تعلیم نے انسان کو خود شناس بھی بنایا اور خدا شناس بھی ۔
یہ کتاب مقدّس ہرلحاظ سے سراپا اعجاز ہے ،اس کا ہر پہلو اتنا دلرُبا ہے کہ اپنے پڑھنے والے کو مسحور کردیتا ہے ، اسی لئے جب سے اس کا نزول ہوا اس نے اپنی فطری جاذبیت سے نوع انسان کے ہر طبقہ سے سنجیدہ اور ذہین افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ، اور اس میں قطعاً مبالغہ نہیں کہ قرآن کریم کے متعلق جتنا کچھ لکھا گیا ہے اُتنا کسی کتاب یا کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا ،لکھنے والوں میں اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی ، محقق بھی تھے اور متعصب بھی ، ادیب بھی تھے اور فلسفی بھی ،عربی بھی تھے اور عجمی بھی ، شمع علم کے پروانے بھی تھے اور میخانہ عرفان کے متوالے بھی ، سب ہی نے تو اس کی خدمت کی بلکہ سب سے ہی اس نے اپنی خدمت لی اور ہر ایک نے اس چاکری کو اپنے لئے باعث عزّت و سعادت سمجھا ۔
اس بحر بے پید کنار میں غواصی کرنے والوں نے غوّاصی کا حق ادا کردیا ، ہر ایک نے اپنی ہمّت کے مطابق انمول موتیوں سے اپنی جھولیاں بھریں ،لیکن اس کے معارف کے خزینے بھرے کے بھرے ہی رہے ، اس کے اسرار و رموز کے گنجینوں میں کمی نہ ہوئی ، جنھوں نے اس گلستان معنی میں گل چینی کرتے کرتے عمریں گزار دیں ، انھوں نے بھی یہ تو نہیں کہا کہ ہم نے سب پھول چن لئے ہیں ، بلکہ سب نے بے تامّل یہ اعتراف کیا
دامان نگاہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین تو از تنگی داماں گلہ وارد
اور ان کا یہ اعتراف عجز ازراہ تواضع وانکسار نہ تھا بلکہ حقیقت کا اظہار تھا اور وہ مجبور تھے کہ اس روشن حقیقت کا اظہار کریں ۔
جس میدان میں ابن جریر اور ابن کثیر جیسے محدث اور مؤرخ ،زمخشری اور ابن حیان اُندلسی جیسے ادیب اور نکتہ سنج ،رازی علیہ الرحمۃ اور بیضاوی علیہ الرحمۃ جیسے متکلم اور فلسفی ،ابو بکر حصاص اور ابو عبد اللہ القرطبی جیسے فقیہ اور مقنّن علیہم الرحمۃ قرآن کی عظمت وجلال کے سامنے دم بخود اور سر بگریباں کھڑے ہوں ، میرے جیسے ہیچمدان ،ہیچمیرز کا ادھر رُخ کرنا یقیناً محل تعّجب و حیرت ہے ۔
خدا شاہد ہے کبھی بھولے سے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے یا میں یہ کام کرنے کی اہلیّت رکھتا ہوں یا اپنے فہم و ادراک کے ناخن سے کسی پیچیدہ گرہ کو کھول سکتا ہوں ،یا میرے قلم میں اتنا زور ہے کہ میری نگارشات قرآن فہمی کے راستہ سے ساری رکاوٹیں دور کرسکتی ہیں ، ان تمام کوتاہیوں کا پورا احساس ہوتے ہوئے یہ کچھ ہوگیا ، اس کی توجیہ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ میں یہ کہوں کہ اللہ رب العزّت نے چاہا اور یہ ہو گیا ، اسی مسبّب الاسباب نے اسباب فراہم کیے ، اسی کی توفیق نے دستگیری فرمائی اسی کی عنایات پیہم کے سہارے قدم اٹھتے رہے ، اسی کی تائید مسلسل سے میں یہاں تک پہنچا اور اسی کی بارگاہ بیکس پناہ میں دامن طلب پھیلائے بصد عجز و نیاز فریاد کناں ہوں کہ اے ذرّوں کو رشک آفتاب بنانے والے !* اے قطروں کو سمندر کی وسعتیں بخشنے والے !* اے گداؤں کو ہفت اقلیم کی سُلطانی کا تاج پہنانے والے ! اے دلوں کے ظلمت کدوں میں اپنی معرفت کا چراغ روشن کرنے والے ! اس ذرّہ ناچیز کو ، اس قطرہ حقیر کو ، اس بے نوا فقیر کو ، اس سیاہ رو اور سیاہ دل کو اپنے محبوب مکرّم رسول معظّم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اپنی عنایات خسروانہ سے ، اپنے الطاف شاہانہ سے ، اپنی نوازشات کریمانہ سے ہمیشہ ہمیشہ سرفراز فرمائے رکھنا ۔
رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علّی وعلٰی والدی وان اعمل صالحا ترضاہ واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین ۔ ( 46، 15 )
فاران کی وادیوں سے قرآن کا چشمہ فیض کیا پھوٹا کہ اس سے علوم و فنون کے دریا بہہ نکلے جنھوں نے جزیرہ عرب کے پیاسے ریگزاروں کو سیراب کیا اور انھیں حکمت و دانش کی جلوہ گاہ بنادیا ، اس ایک کتاب مجید نے جہاں پہلے علوم کو حیات نو بخشی وہاں اس نے بے شمار جدید علوم کی تشکیل کا سامان فراہم کردیا ، علوم تفسیر ،لغت و فقہ الّلغۃ ، فقہ و اصول فقہ ،معانی و بلاغۃ وبدیع ، صرف و نحو ،قرآت و تجوید ،وعظ و خطابت ،قصص و اخبار ، امثال و حکایات ان کے علاوہ اور کئی علوم ہیں جنھوں نے قرآن کریم کے سایہ عاطفت میں جنم لیا اور اسی کے آغوش تربیت میں پروان چڑھے ، اس طرح قرآن حکیم کے فیض سے دنیا کی سب سے زیادہ جاہل قوم علم و حکمت کے عظیم خزانوں کی مالک بلکہ خالق بن گئی ۔
ہر عہد میں ملت اسلامیہ کے ذہین و فطین افراد نے جو روشن دماغ بھی تھے اور روشن ضمیر بھی اپنی ذاتی استطاعت، ذاتی صلاحیت و استعداد اور اپنے مخصوص ماحول کی ضروریات اور تقاضوں کے پیش نظر قرآن مجید کے ان خادم علوم میں سے کسی ایک کو اپنے لئے منتخب کیا اور خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔ اور اپنے اپنے موضوع پر ایسی زندہء جاوید تالیفات و تصنیفات کا گراں بہا ذخیرہ چھوڑا جن کی روشنی سے دنیا بھر کے کتب خانے اور دانش نگاہیں آج بھی چمک رہی ہیں لیکن اس ناچیز کے نزدیک قرآن کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کتاب ہدایت ہے۔ اس کے نازل فرمانے والے نے بارہا اس کا تعارف اس قسم کے کلمات سے کرایا ہے:۔
ھذا بیان للناس وھدی وموعظۃ للمتقین (3: 138 )
آج ہمیں قرآن مجید کے اسی پہلو پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئیے لیکن شومئی تقدیر ملاحظہ ہو آج قرآن کا یہی پہلو متروک اور مہجورہے۔
قرآن حکیم کا مقصد اولین انسان کی اصلاح ہے تربیت پیہم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطئنہ بنانا ہے ہوا، وہوس کے غُبار سے آئینہ دل کو صاف کرکے اسے انوار ربانی کی جلوہ گاہ بنانا ہے۔ انانیت و غرور، تمردو سرکشی کی بیخ کنی کرکے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کا خُوگر کرنا ہے۔ یہی کام سب سے اہم بھی ہے اور سب سے مشکل اور کٹھن بھی۔ قرآن مجید نے اسی اہم ترین اور مشکل ترین کام کو سر انجام دیا اور اس حسن و خوبی سے کہ دنیا کا نقشہ بدل گیا۔
یہ صرف باتیں ہی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت ہے زندہء جاوید حقیقت اور ناقابل انکار حقیقت کہ قرآن کی ہدایت سے بگڑا ہوا انسان سدھرا اور سدھر کر ساری کائنات کے لئے آیہء رحمت بن گیا۔ غور فرمائیے حکمتِ الٰہی نے نزولِ قرآن کے لئے جس سر زمین کو منتخب کیا۔ وہ عرب کا خظہ تھا۔ وہاں بسنے والے لوگ شکل و صُورت میں تو انسان تھے لیکن انسانیت سے اُن کا دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ کفر و شرک، فسق و فجور، ظلم و ستم، وحشت و بربریت، جہالت اور اجڈپن اس پر فقر و افلاس مستزاد، غرضیکہ کونسا عیب تھا یا کونسی گمراہی تھی جو اُن میں بدرجہء اتم موجود نہ تھی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی تاثیر اور صاحب قرآن کی برکت سے وہ کیا سے کیا بن گئے۔ اگر قرآن عرب کے اجڈ بدوؤں کو آدم و بنی آدم کے لئے باعثِ عز و شرف بنا سکتا ہے۔ اگر ان جاہلوں کو جو ابجد خواں بھی نہ تھے بزعم علم و دانش* کرنے والی قوم کے دل میں معرفت الٰہی کی شمع فروزاں کر سکتا ہے تو ہمارے صنم کدہ تصورات کے لات و ہبل کو کیوں ریزہ ریزہ نہیں کرسکتا ،بشرطیکہ ہم قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور ہمارا کاروان حیات اس شاہراہ ہدایت پر گامزن ہو جائے جو قرآن نے ہمارے لئے تجویز کی ہے ۔
اے درماندہ راہ قوم !قرآن تمھیں عظمت وعزت کی بلندیوں کی طرف آج بھی لے جا سکتا ہے بشرطیکہ تم اس کی قیادت قبول کر لو ۔