حضرت داتا گنج بخش رحمتة اللہ علیہ


حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ

(400ھ تا 465ھ / 1009ء تا 1079ء) ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ سے پائی ۔ مرشد کے حکم سے 1039ء میں لاہور پہنچے کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔

عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں اور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں۔


نام ونسب


آپ کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ لیکن عوام و خواص سب میں "گنج بخش" یا "داتا گنج بخش" کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ۴۰۰ ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رحمتہ اللہ علیہ رہتے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں۔

اساتذہ


آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اساتذہ میں حضرت شیخ ابو العباس اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمتہ اللہ علیہ، ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی رحمتہ اللہ علیہ، ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمتہ اللہ علیہ کے نام ملتے ہیں۔

شیخ ابو العباس اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ


شیخ ابو العباس اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت علی ہجویری بیان کرتے ہیں کہ آپ علم اصول اور فروع میں امام اور اہل تصوف میں اعلٰی پایہ کے بزرگ تھے۔ مجھے آپ سے بڑی محبت تھی اور آپ بھی مجھ پر سچی شفقت فرماتے تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے مانند کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ نہ آپ سے بڑھ کر شریعت کی تعظیم کرنے والا کوئی دیکھا۔ اکثر فرمایا کرتے: اشتھی عدماً لا وجود لہ۔ یعنی میں ایسی نیستی چاہتا ہوں جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمائی۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا: اے کاش میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا۔ اے کاش میں یہ تنکا ہوتا ۔ ایک دفعہ میں شیخ اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا تو آپ پڑھ رہے تھے: ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً عَبدً امَہلُو ًکاًلاَیَقدِرُعَلٰی شَیئیً (۷۵:۱۶)۔ یعنی "اللہ ایک مثال دیتا ہے، ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا"۔ بار بار اسے پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے، حتٰی کہ آ پ بے ہوش ہو گئے۔ اور میں نے سمجھا کہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے عرض کیا، اے شیخ! یہ کیا حالت ہے؟ فرمایا کہ گیارہ سال ہو گئے ہیں، میرا ورد یہی ہے، اس سے آگے نہیں گذر سکا۔

شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمتہ اللہ علیہ


شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ صوفیائے متاخرین میں منجلمہ روسائے متوصفین میں سے تھے۔ علم حقیقت میں بہت فصیح البیان تھے۔ حسین بن منصور کے طریقہ کی طرف مائل تھے۔ آپ کی بعض تصانیف میں نے ان سے پڑھی ہیں۔

شیخ ابو القاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمتہ اللہ علیہ

شیخ ابو القاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ اپنے وقت میں بے نظیر تھے۔ وقت کے تمام طالبان حق کا آپ پر اعتماد تھا۔ وقت کے تمام طالبان حق کا آپ پر اعتماد تھا۔ علوم و فنون میں بہت ماہر تھے۔ آپ کا ہر مرید زیور علم سے آراستہ تھا۔مجھ سے بہت احترام سے پیش آتے تھے۔ اور بہت توجہ سے بات سنتے تھے، حالانکہ میں آپ کے مقابلہ میں نو عمر بچہ تھا۔ ایک روز میں آپ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ مجھ سے اس قدر عاجزی اور انکساری سے پیش آتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ میں کوئی بات کہوں، آپ نے فرمایا: اے میرے باپ کے دوست! خوب جان لے کہ میری یہ عاجزی اور انکساری تیرے لیے نہیں، میری یہ عاجزی احوال کے بدلنے والے کے لیے ہے اور یہ تمام طالبان حق کے لیے عام ہے۔ یاد رکھ کہ آدمی خیالات کی قید سے کبھی بھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔ خدا کے ساتھ بندگی کی نسبت سے کام رکھ۔ اس ایک نسبت کے سوا دوسری تمام نسبتوں کو اپنے سے دور کر دے۔ آپ کی کتابیں مشکل ہیں۔

شیخ ابو القاسم بن ہوازن القشیری رحمتہ اللہ علیہ


شیخ ابو القاسم بن ہوازن القشیری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اپنے زمانہ میں نادرالوجود اور بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ ہر فن میں آپ کی تصانیف محققانہ اور عمدہ ہیں۔ بے کار بحث و گفتگو اور لغو باتوں سے آپ بالکل الگ رہتے تھے۔ حسین بن منصور کے بارے میں صوفیاء میں بحثیں ہوتیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ مردود اور دوسرے کے نزدیک مقبول بارگاہ تھے۔ آپ فرماتے کہ اگر منصور ارباب معافی وحقیقت میں سے تھا تو کوئی چیز اسے خداوند کریم سے علیحدہ نہیں کر سکتی اور اگر خدا کی درگاہ سے مردود تھا تھو مخلوق میں سے کوئی اسے بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں بنا سکتا۔ ہم اسے حوالہء خدا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایاَ مَثَلَ الصّوفِی کَعِلَّۃِ البَرسَامِ اّوَّلہ ھِذیَان وَاٰخِرُہ سَکُوًتُ فَاِزَاتَمَکَّنَ خَرَسَ۔ یعنی جو خیال آئے اسے پاگلوں کی طرح بیان کرتے چلے جانا، ہے اور اس کا آخر سکوت ہے۔ اور جب آدمی درجہ تمکین کو پہنچ جاتا ہے تو گونگا ہو جاتا ہے۔