موج در موج کناروں کو سزا ملتی ہے
کوئی ڈوبے تو سہاروں کو سزا ملتی ہے

میکدے سے جو نکلتا ہے کوئی بے نشہ
چشمِ ساقی کے اشاروں کو سزا ملتی ہے

آپ کی زُلفِ پریشان کا تصور توبہ
نگہت و نُور کے دھاروں کو سزا ملتی ہے

جب وہ دانتوں میں دباتے ہیں گلابی آنچل
کتنے پُر کیف نظاروں کو سزا ملتی ہے

میرے پیمانے میں ڈھل جاتا ہے پُھولوں کا ثبات
میرے ساغرؔ میں بہاروں کو سزا ملتی ہے

ساغر صدیقی