سوچتا ہوں کہ اسے نیند بھی آتی ہوگی
یا مری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی

وہ مری شکل مرا نام بھلانے والی
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی

اس زمیں پر بھی ہے سیلاب مرے اشکوں کا
مرے ماتم کی صدا عرش ہلاتی ہوگی

شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شمعیں
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی

اس نے سلوا بھی لئے ہوں گے سیا ہ رنگ لباس
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی

ہوتی ہوگی مرے بوسے کی طلب میں پاگل
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی

میرے تاریک زمانے سے نکلنے والی
روشنی تجھ کو مری یاد دلاتی ہوگی

دل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہوں گی
جونہی تصویر کا کونہ وہ جلاتی ہوگی