تحریر : نادر سرگروہ

احساس


چاند دِکھ گيا، چاند دِکھ گيا، کی صدا لگاتا دوڑتا، قمرو جھونپڑی ميں داخل ہوا، اندر بيٹھی اس کی ماں قميض ميں پيوند لگا رہی تھی، اس نے اپنی ماں کی جُھکی ہوئی گردن کو ٹھوڑی سے اٹھا کر قدرے معصوميت سے کہا، ماں، ماں، چاند دِکھ گيا، ماں نے خاموشی اور ايک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے اپنے بيٹے کی دی ہوئی خبر وصول کی، قمرو کے پير ميں زخم تھا جس پر ماں نے اپنے پرانے کپڑوں ميں سے ايک بہت ہی پرانے کپڑے کو جلا کر راکھ بنائی اور اسے قمرو کے زخم پر باندھ ديا، قمرو اپنی توتلی زبان ميں بہت کچھ کہتا جا رہا تھا، ماں تھی کہ کسی اور سوچ ميں گم، ۔قمرو پھر دوڑتا، لنگڑاتا اور صدا لگاتا جھونپڑی سے باہر نکلا اور اس کی آواز اس جيسے دوسرے بچوں کے شور ميں مل کر گم ہو گئی۔
کل عيد تھی، جھونپڑی ميں بيٹھی قمرو کی ماں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے ايک آہ بھری جيسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو کہ يہ عيد تو صرف فطرہ ادا کرنے والوں کی عيد ہے، فطرہ لينے والوں کی عيد تو صرف فطرہ و صدقات وصول کرنے ميں ہی گزر جاتی ہے، اسے ياد آ رہا تھا کہ جب وہ ايک گھر ميں کام کيا کرتی تھی، وہاں عيد سے چند روز پہلے ہی عيد کی تيارياں شروع ہوا کرتی تھيں، عيد پر تيار کيے جانے والے پکوانوں پر گھنٹوں بحث ہوا کرتی تھی اور نجانے کيا کيا، ان کے يہاں عيد سے پہلے بھی عيد منائیی جاتی تھی اور عيد کے بعد بھی۔
قمرو پھر آواز لگاتا جھونپڑی ميں داخل ہوا اس بارہ وہ اکيلا نہيں تھا، پڑوس کا ٹونا دوسرے بچے بھی ساتھ تھے، ٹونے نے عيد سے پہلے ہی نئے کپڑے پہن رکھے تھے، اس کی ماں جہاں کام کرتی تھی اس گھر سے ملے تھے، شرماتے ہوئے ٹونے کو قمرو بازو سے پکڑ کر اپنی ماں کے سامنے لے آيا اور اس کے کپڑوں کی خوبياں بيان کرنا شروع کر ديں، قميض تھوڑی سی تنگ تھی، ٹونے نے اسے ايک ہاتھ سے نيچے کھينچ رکھا تھا اور ايک ہاتھ سے اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں والی ہنسی کو چھپا رہا تھا، ليکن اس کی آنکھوں کے دو پيالوں سے نئے کپڑوں والی ہنسی چھلک چھلک رہی تھی، قمرو نے پھر ايک آواز لگائی، اس نے اور لوگوں کو بھی ٹونا کے کپڑے دکھانے تھے، وہ ٹونا کو کھينچتا ہوا باہر لے گيا، دوسرے آدھ ننگے اور کچھ پھٹے کپڑوں ميں ڈھکے بچے بھی اس کے پيچھے پيچھے ہو ليے۔
قمرو جھونپڑی سے نکل گيا اپنے پيچھے ايک تاثر ضرور چھوڑ گيا جس سے وہ خود ناواقف تھا، قمر تو بچہ تھا ليکن اس ميں کتنی سمجھ تھی، اسے اپنے حالات اور وسائل کا بخوبی اندازہ تھا، ٹونا کے نئے لباس ميں وہ اپنی خوشی محسوس کر رہا تھا، اس کے دل ميں بالکل اسی طرح کے لباس کے حصول کی کوئی خواہش نہيں تھی۔
کل، قمرو کی ماں نے پوٹھتے ہی قطار ميں کھڑے ہونا تھا، بڑی مسجد کے منتظمين عيد کی نماز کے بعد لوگوں ميں رقم تقسيم کرنے والے تھے، اس نے ايک بار پھر خاموشی کو توڑا ايک سرد آہ بھری جيسے کسی سے شکايت کر رہی ہو کہ يہ لوگ زکوٰۃ صرف رمضان ميں ہی کيوں نکالتے ہيں؟ کاش ايسا ہو کہ ہر صاحب حيثيت ہر سال زکوٰۃ نکالے اور مختلف لوگ اسے مختلف اوقات ميں تقسيم کريں تو شايد ہی کوئی ضرورت مند باقی رہے، اس نے گردن کو ہلکی سی جنبش دی جيسے کہہ رہي ہو يہ نا ممکن ہے لوگوں کو صرف اجر کی فکر رہتی ہے، ليکن وہ يہ بات بھول جاتے ہيں کہ رب عظيم جب چاہے جسے چاہے رمضان جيسا اجر دے سکتا ہے، کاش ايسے لوگوں کو مستحقين کی ضرورت اور تکاليف کا بھی " احساس " ہوتا۔
قمرو پھر لنگڑاتا ہوا جھونپڑی ميں داخل ہوا، اب کی بار وہ دوڑا نہيں تھا اور نہ اس نے کوئی صدا لگائی تھی، شايد وہ تھک گيا تھا، اس کے ہاتھ ميں کاغذ کی ايک پڑيا تھی، ہميشہ کی طرح آج بھی اس نے سڑکوں کی خاک چھانی تھی اور اپنے کھانے کا اتنظام کر آيا تھا، پيٹ کی آگ ٹھنڈی پڑتے ہی صبح سے دوڑتا، لنگڑاتا اور صدا لگاتا قمرو نيند کی آغوش ميں جھول گيا۔۔
يہ رات بھی دوسری عام راتوں کی طرح گزری، عيد کی صبح گھر سے نکلتے وقت ماں نے قمرو کو باکل ہی پھٹے پرانے کپڑوں ميں ملبوس کيا، چونکہ يہ دنيا صرف ظاہر ديکھتی ہے اس ليے مفلسوں کو بھی اپنی مفلسی اوڑھ کر پھرنا پڑتا ہے ورنہ ان کے اٹھے ہوئے خالی ہاتھ خالی ہی رہ جاتے ہيں۔
آج، کل والا سورج پھر نکلا، اس نے ديکھا کہ ہر طرف لوگ اپنے اپنے طريقوں سے عيد منا رہے ہيں، قمرو اور اس کی ماں بھی عيد منا رہے ہيں، ماں ايک لمبی قطار ميں کھڑی ہے قمرو کبھی يہاں دوڑتا اور کبھی وہاں دوڑتا اپنی چھوٹی چھوٹی انگليوں کے پوروں سے لوگوں کے بازوؤں کو ڈرتے ڈرتے چھو رہا ہے، اسے پتہ تھا کہ آج اگر اس نے يہ موقع ہاتھ سے جانے ديا تو ؟
سورج اب سر پر آ چکا تھا، نجانے اب وہ کہاں کہاں اور کتنے قمرو اور ان کی ماؤں کو اس طرح عيد مناتے ديکھ رہا تھا۔