ہر روز ہمیں ملنا ہر روز بچھڑنا ہے
میں رات کی پرچھائیں تو صبح کا چہرہ ہے

عالم کا یہ سب نقشہ بچوں کا گھروندا ہے
اِک ذرّے کے قصبے میں سہمی ہوئی دُنیا ہے

ان کے ہی اشاروں پر یہ رات ملی ہم کو
جن چاند سے چہروں کا سایہ بھی سنہرا ہے

سناٹے کی شاخوں پر کچھ زخمی پرندے ہیں
خاموشی بذاتِ خود آواز کا صحرا ہے

اِک گونج بھٹکتی ہے سنسان پہاڑوں میں
جب رات کے سینے میں دل میرا دھڑکتا ہے

کب جانے ہوا اس کو بکھرا دے فضاؤں میں
خاموش درختوں پر سہما ہوا نغمہ ہے
**<<~*~*~*~>>**