ہمہ وقت رنج و ملال کیا جو گزر گیا سو گزر گیا
اسے یاد کر کے نہ دل دکھا جو گزر گیا سو گزر گیا

نہ گلہ کیا، نہ خفا ہوئے یونہی راستے میں فدا ہوئے
نہ تو بے وفا نہ میں بے وفا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ غزل کی اِک کتاب تھا وہ گلوں میں اِک گلاب تھا
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا، جو گزر گیا سو گزر گیا

مجھے پت جھڑوں کی کہانیاں نہ سنا سنا کے اُداس کر
تو خزاں کا پھول ہے مسکرا، جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ اُداس دُھوپ سمیٹ کر کہیں وادیوں میں اتر چکا
اسے ا ب نہ دے میرے دل صدا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

یہ سفر بھی کتنا طویل ہے یہاں وقت کتنا قلیل ہے
کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا ،جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ وفائیں تھیں کہ جفائیں تھیں نہ یہ سوچ کس کی خطائیں تھیں
وہ تیرا ہے اس کو گلے لگا، جوگزر گیا سو گزر گیا

کوئی فرق شاہ گدا نہیں کہ یہاں کسی بقا نہیں
یہ اُجاڑ محلوں کی سُن صدا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

تجھے اعتبار و یقین نہیں، نہیں دُنیا اتنی بُری نہیں
نہ ملال کر میرے ساتھ آ، جو گزر گیا سو گزر گیا
<<~*~*~*~*~*~>>