نہ تاب مستی، نہ ھوش ہستی، کہ شکر نعمت ادا کریں گے
خزاں میں جب ہے یہ اپنا عالم، بہار آیی تو کیا کریں گے

ہر ایک غم کو فروغ دے کر یہاں تک آراستہ کریں گے
وہی جو رہتے ہیں دور ہم سے، خود اپنی آغوش وا کریں گے

جدھر سے گزریں گے سرفروشانہ کارنامے سنا کریں گے
وہ اپنے دل کو ہزار روکیں مری محبت کو کیا کریں گے

نہ شکر غم زیر لب کریں گے نہ شکوہء برملا کریں گے
جو ہم پہ گزرے گی دل ہی دل میں کہا کریں گے سنا کریں گے

یہ ظاہری جلوہ ہایے رنگیں فریب کب تک دیا کریں گے
نظر کی جو کر سکے نہ تسکیں وہ دل کی تسکین کیا کریں گے

وہاں بھی آہیں بھرا کریں گے، وہاں بھی نالے کیا کریں گے
جنھین ہے تجھ سے ہی صرف نسبت وہ تیری جنت کو کیا کریں گے

نہیں ہے جن کو مجال ہستی سوایے اس کے وہ کیا کریں گے
کہ جس زمیں کے ہیں بسنے والے اسی کو رسوا کیا کریں گے

ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہواکریں گے