باغی میں آدمی سے, نہ مُنکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ مری اپنی اَنا کا تھا

گُم صُم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شاید وہ منتظر کسی اندھی ہَوا کا تھا

اپنے دُھویں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیے میں غرور انتہا کا تھا

دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا

لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخِ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا؟

ورنہ مکانِ ِتیرہ کہاں‘ چاندنی کہاں؟
اُس دستِ بے چراغ میں شعلہ حنا کا تھا

میں خوش ہُوا کہ لوگ اکٹھے ہیں شہر کے
باہر گلی میں شور تھا لیکن ہوا کا تھا

اُس کو غلافِ روح میں رکھّا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا

محسن نقوی