تحریر: ڈاکٹر مطلوب حسین

نسیمِ سحر کے جھونکوں کے ساتھ، محنتی قوم کے جفا کش لوگ جاگے تو مطلع صاف تھا۔سورج کی روپہلی کرنیں فلک آفگیں ہونا شروع ہوئیں تو ہلکے ہلکے بادل بھی آگئے۔ فضائ پہ سکوت طاری تھا۔بہت ہی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آج کی طلوع ہونے والی صبح کے ساتھ کسی نے بھی چڑیوں کی چہچہاہٹ نہیں سُنی۔ کوئی بھی پرندہ فضائ میں اس روز نہیں دیکھا گیا۔سورج کے جلوہ نما ہونے کے ساتھ ساتھ فضائ میں عجیب قسم کی قنوطیت محسوس ہو رہی تھی۔ایسے لگ رہا تھا کہ اداسی کی دھند سی چھائی ہوئی ہے.دراصل یہ آج سے ٹھیک 62 سال قبل 6/اگست کی ایک اداس صبح کا تذکرہ ہے۔سوچ میں گہرائی رکھنے والے کچھ دماغوں کے اوہام میں غمگین لہروں کابسیرا تھا۔کچھ لوگ کسی انجانے کرب اور گہرے دکھ کا احساس اپنے اندر محسوس کر رہے تھے.یہ 1945ئ کاوہ زمانہ ہے جب دوسری عالمی جنگ اپنے پورے جوبن پر تھی۔جرمنی اور جاپان اتحادی تھے۔جاپان کے جنگی طیارے امریکی بندر گاہ ’’پرل ہاربر‘‘ کو تباہ و برباد کر چکے تھے،جو امریکہ کے لئے ناقابلِ یقین تھا۔سمندروں میں بھی جاپانی فوج خود کُش حملوں کے ذریعے امریکی سمندری جہاز وں کوغرق کررہی تھی ۔جاپان کسی بھی طور سرینڈر کرنے پہ آمادہ نہ تھا۔

جاپانی قوم کے حوصلے بلند تھے۔جنگ کے ساتھ کاروبارِ زندگی بھی جاری و ساری تھا۔6/اگست کی صبح بھی لوگ اپنے اپنے دفتروں اور کاروباری مراکز پر جانے کے لئے رواں دواں تھے۔سورج اب اُفق سے بلند ہو چکا تھا۔کبھی کبھی بادلوں کے گالے سورج کی ٹکیہ کو ڈھانپ لیتے تھے۔ جنگ کا زمانہ تھا اور خطرے کے سائرن روز بجتے تھے، لوگوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی،البتہ چوکنے ہو گئے۔ کچھ لوگ حفاظتی مورچوں میں دبک کر بیٹھ گئے ،جو حکومت نے عوام کے لئے جگہ جگہ بنا ر کھے تھے۔تاہم اکثریت حرکاتِ زندگی میں محو و منہمک رہی.آج کے جدید زمانہ میں امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے خطرناک ’’بی 52 بمبار‘‘ طیارہ موجود ہے۔اس کی بلند پروازی اتنی زیادہ ہے کہ یہ کسی ملک پر ایٹم بم گرا کر واپس چلا جائے تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دنیا کا بہترین طیارہ ایف 16 بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرکے جو میزائل فائر کرے گا وہ کُل چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر جائے گا،جبکہ بی 52 بمبار طیارہ اسلحہ سے پوری طرح لیس ہو کر 60 ہزار فٹ کی بلندی پر پروا زکرتا ہے۔ایف سولہ کا، ایف35 ’’ورژن‘‘ بھی آچکا ہے،جو امریکہ اب بھارت کو دے رہا ہے.آج کے زمانہ کا بی باون بمبار، اُس زمانے کے بی 29 کی جدید شکل ہے.جونہی گھڑی کی سوئیوں نے صبح 8 بج کر13 منٹ کی نشاندہی کی، جاپان کے شہر ’’ہیرو شیما‘‘ کی فضائ میں بلندیوں پر، اچانک خوف کی علامت تین بمبار بی 29 ،امریکی طیارے نمودار ہوئے۔یہ جاپان کا سب سے مصروف ترین شہر تھا۔ ایک طیارے نے شہر کے عین مرکز میں بلندی پر پہنچ کردنیا کا سب سے پہلا ایٹم بم ’’لِٹل بوائے‘‘ نیچے گرادیا. طیارے نے ایٹم بم کے دائرہ اثر سے نکلنے کے لئے پوری سپیڈ کے ساتھ پرواز شروع کر دی۔1850 فٹ کی بلندی سے گرایا گیادس فٹ لمبا اور دوفٹ چار انچ چوڑابم صرف بیالیس سیکنڈ میں ہی زمین پر آپہنچا .ایٹم بم پھٹا،ہیبت ناک دھماکہ ہوا۔تباہ کن چمک اور انتہائی تیز آواز پیدا ہوئی ،بم کی آگ پہنچنے سے قبل ہی بیشمار لوگ صرف آواز کی کڑک سے ہی ہلاک ہو گئے تھے۔ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زبردست تھرتھراہٹ، ارتعاش،گڑگڑاہٹ اور زلزلے کا شدید جھٹکا محسوس کیا گیا ۔صرف ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے میں شدید آگ کا ایک طوفان نما گولہ نمودار ہوا،جو فضائ میں 4 ہزار فٹ تک بلند ہوتا چلا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جہاز اپنی پوری رفتار سے پرواز نہ کرتا تو وہ بھی جل جاتا ۔اُس طوفانی آگ کے بادل کی شکل کھمبی کے پودے جیسی تھی۔اس کا اندرونی درجۂ حرارت 3لاکھ درجے فارن ہیٹ تھا۔ سات ہزار ڈگری فارن ہیٹ پر لوہا پگھل جاتا ہے۔ 3لاکھ ڈگری فارن ہائیٹ سے کیسی تباہی ہوئی ہوگی؟.؟.یہ بم بیس ہزار ’’ٹی این ٹی‘‘ بارودی قوت کے برابر تھا،جس سے 20 کھرب کیلوریز حرارت خارج ہوئی اور پوراشہر آگ
کی لپیٹ میں آگیا۔

مکانات ،عمارات،اشجار،جاندار،بسیں گاڑیاں ،مشینیں ،سب جل کر راکھ ہوگئے۔ریلوے لائینیں پگھل گئیں. عمارتوں کے شیشے ٹوٹ کر 115 کلومیٹر دور تک اُڑتے چلے گئے،جن سے دور دراز کے پرندے ،جانور اور انسان زخمی ہوگئے. چالیس ہزار انسان فوراََ ہی لقمۂ اجل بن گئے، تیس ہزار سے زائدزخمی اور ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔کئی ہزار دو مہینوں کے اندر ہلاک ہو گئے۔ تین دن بعد 9/ اگست کو ’’ناگاساکی‘‘ پر بھی دوسرا ایٹم بم گردیا گیا.دو شہروں میں تقریباََ تین لاکھ افرادمتاثر ہوئے. ایٹم کی طاقت کا مظاہرہ اس شکل میں ہوا کہ جن پہاڑوں پر بم گراتھا وہ پہاڑ دھواں بن کر اُڑ گئے۔دھماکہ کے بعد انتہائی تابکارشعاعیں کئی کلومیٹر کے قطر میںپھیل گئیں۔تابکار شعاؤں کا اثر درختوں،پودوںاور پھلوں پر بھی ہوا۔ہر قسم کی خوراک اورپانی زہریلا ہو گیا ،اس طرح بھی انسان اور جاندار مر گئے ۔بم دھماکہ سے دریاؤں کا پانی بھاپ بن گیا،مٹی اور گرد اُڑکرہوا میں آسمان کی طرف چلی گئی ۔پندرہ منٹ بعد یہ گرد زمین پر تابکاری اثرات کے ساتھ گرنا شروع ہو گئی۔یہ کالی بارش تھی۔ کئی گھنٹے کی بارش سے درجۂ حرارت 25 ڈگری تک گر گیا۔جبکہ شہر کے جنوبی حصے کے ارد گرد گرمی کی وجہ سے ہوا کا دباؤ اچانک کم ہو گیا۔جس کی وجہ سے ہوا کے بگولے اُٹھنے لگے. جس جگہ بم گرا تھا وہاں یادگار کے طور پر ایک عجائب گھر تعمیر کیا گیا ہے۔اس عجائب گھر میں تباہی کے تمام مناظر اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایٹمی طاقتوں کے پاس اب کہیں زیادہ طاقتوراور تباہ کن بم موجودہیں۔کسی بھی ’’ایٹمی سربراہ‘‘ کے دماغ کی ذرا سی خرابی پوری دنیا کو چند لمحوں میں بھک سے اُڑا سکتی ہے۔جو لوگ ایٹم بم گرانے میں ملوث تھے وہ’’قومی ہیرو‘‘ قرار پائے ۔ دو ایٹم بموں کی تباہی باسٹھ سال گذرنے کے باوجود اب تک دنیا کو نہیں بھولی۔زمین اب چالیس ہزار ایٹم بموں کے نرغے میں ہے۔ایٹم بم کاموجد ’’آئن سٹائن ‘‘ اپنے آخری دنوں میں یہ کہتا پایا گیا تھا کہ :’’کاش میں نے انسانیت دشمن ہتھیار نہ بنا یا ہوتا‘‘.حقائق بڑے ہی تلخ ہوتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جو چیز معرضِ وجود میں آجاتی ہے اس کا استعمال لازمی ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے آج نہیں تو کل یہ چالیس ہزار ایٹم بم چلیں گے توکروڑوں لوگ لقمۂ اجل بنیں گے۔ تلخ حقائق یہ بھی ہیں کہ ایٹمی سائنسدانوں کے بنائے ہوئے ایٹم بموں سے ہمارے باپ ’’آدم (ع) ‘‘ ہی کی نسل کے کروڑوں انسان مریں گے۔آدم (ع) کے ناطے ان سے ہمارا رشتہ بہن بھائیوں کے علاوہ کچھ نہیں. جن سائنسدانوں کے ایٹمی ہتھیاروں سے مستقبل میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ مریں گے دنیا انہیں اعزازات اورقومی ہیروز کا درجہ دیتی ہے .ذرا مفادات سے بالا ہو کر ، صرف ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ کیا یہ انسان دوستی ہے؟.؟؟.ایک بندہ اپنی ذہنی صلاحیتیں استعمال کر کے تین لاکھ انسانوں کو مار سکتا ہے، تو پھرکیا یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان اپنے ذہن کی مثبت صلاحیتوں کو استعمال کر کے تین لاکھ انسانوں کو’’نئی زندگی‘‘ دے سکے؟.؟؟۔