حسب معمول، تحریک طالبان پاکستان نے مردان حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس کا تجزیہ پڑھیے۔

’فوج کے مرکز پر حملہ اور طالبان کے دعوے‘


رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں پنجاب ریجمنٹ سینٹر پر ہونے والے مبینہ خودکش حملے کا بظاہر ہدف تو سکیورٹی اہلکار تھے تاہم اس علاقے میں فوج یا اس کے کسی تربیتی مرکز کو کافی عرصہ کے بعد کسی براہ راست حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات اور صوبائی حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین نے اس حملے کو مہمند ایجنسی میں طالبان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا ردِ عمل قرار دیا ہے۔ لیکن طالبان کی جانب سے میڈیا کو جو بیانات جاری کیے گئے ہیں وہ صوبائی وزیر کے موقف سے مختلف نظر آتے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والے اس تازہ حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ ایک مرتبہ پھر طالبان کے دو گروپوں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے صحافیوں کو فون کر کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی جبکہ مالاکنڈ ڈویژن میں خود کو عسکریت پسندوں کا ایک ترجمان ظاہر کرنے والے اظہار نامی ایک شخص نے بھی اپنی تنظیم کی جانب سے مردان حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ۔
اظہار کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کے بدلے میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں کافی عرصہ سے ان کے ساتھیوں کو سکیورٹی فورسز کی تحویل میں مارا جا رہا ہے اور یہ حملہ بھی ان ہلاکتوں کے رد ِعمل کے طور پر کیا گیا ہے۔ تاہم سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کے ان الزامات کی وقتاً فوقتاً تردید کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور قبائلی علاقوں میں جاری زیادہ تر خودکش یا بم حملوں کے واقعات میں پولیس اہلکاروں یا حکومتی حامی افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ اس دوران فوجی اہلکاروں پر کم ہی حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔
اگرچہ اس سے پہلے مردان اور مالاکنڈ ڈویژن میں پنجاب ریجمنٹ کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ تاہم وہ حملےایسے وقت پیش آئے تھے جب سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں طالبان عروج پر تھے۔
سوات میں تقریباً دو سال پہلے ہونے والے موثر فوجی آپریشن کے بعد مالاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے جبکہ ان کا کمانڈ اور کنٹرول نظام بھی بری طرح متاثر ہوا اور عسکریت پسند اپنے کمانڈروں کے ہمراہ بھاگنے پر مجبور ہوئے جبکہ کئی مارے بھی گئے۔
اکثر دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سوات میں شدت پسندوں کی فوج کے ہاتھوں بری طرح شکست اور ان کے چن چن کر مارے جانے سے ملک کے دیگر علاقوں میں سرگرم طالبان کے لیے یہ خطرے کا ایک پیغام تھا اور شاہد یہی وجہ تھی کہ اس آپریشن کے بعد فوج پر براہ راست حملوں میں کمی واقع ہوئی۔
ابھی تک یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے نہیں آسکی ہے کہ تازہ حملہ طالبان کے کس گروپ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ تاہم بعض سکیورٹی اہلکاروں کو شک ہے کہ ان میں مردان کے شدت پسند بھی ملوث ہو سکتے ہیں جن کے اورکزئی ایجنسی کے طالبان سے مضبوط روابط بتائے جاتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف اس علاقے میں فوج کے مراکز پر پہلے ہونے والے حملوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں سوات یا باجوڑ کے عسکریت پسند کسی نہ کسی شکل میں ملوث بتائے گئے ہیں۔
اس علاقے میں فوج کے مراکز پر پہلے ہونے والے حملوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں سوات یا باجوڑ کے عسکریت پسندوں کسی نہ کسی شکل میں ملوث بتائے گئے ہیں۔
تاہم ملا کنڈ طالبان کے ترجمان اظہار کی طرف سے میڈیا کو جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں ایک ہی بات دہرائی گئی ہے کہ یہ حملہ ان کی ساتھیوں کی سکیورٹی فورسز کی مبینہ تحویل میں ہلاکت کے ردِ عمل میں کیا گیا ہے۔
سوات میں پچھلے چند ماہ سے شدت پسندوں کے خلاف کاروائیاں بڑھی ہیں۔سکیورٹی فورسز کے مطابق عسکریت پسند آپریشن کے دوران ہلاک ہوتے ہیں جب کہ مقامی لوگ اور طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان واقعات میں ہلاک ہونے والے اکثر ان کے وہ ساتھی ہیں جنھیں سکیورٹی فورسز بہت پہلے گرفتار کر چکی ہے اور اب انھیں مبینہ طور پر تحویل میں مارا جا رہا ہے۔
یہ سلسلہ پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ اس بارے میں انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر سی پی) نے ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ یہ واقعات میڈیا میں کم ہی رپورٹ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسند میڈیا کو ہدف تنقید بھی بناتے رہے ہیں۔ تاہم سکیورٹی فورسز اور حکومت کئی بار طالبان کی ان الزامات کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔