اسلام علیکم

ایک صاحب غصے کے بہت تیز تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر چیخنے چلانے لگتے۔ ان کی بیوی سے ایک دن کھانے میں نمک تیز ہو گیا۔ ان صاحب نے کھانا چکھا اور غصے میں گھور کر بیوی کو دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے، بیوی نے کہا، "اگر یہی غلطی آپ کی بیٹی سے ہوتی تو آپ اپنے داماد سے کیسے رویے کی توقع کرتے؟"

ان صاحب نے سوچا تو ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اس صورت میں میں داماد کو یہی مشورہ دیتا کہ یہ ایک معمولی سی غلطی ہے۔ اسے نظر انداز کر دینا چاہیے یا زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو وہ محبت سے سمجھا دے۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے سوچا کہ میں اپنی بیٹی کے معاملے میں تو دوسروں سے اچھے سلوک کی توقع رکھتا ہوں لیکن میری بیوی، جو کسی اور کی بیٹی ہے اس کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔

یہ خیال آتے ہی انہوں نے اپنے سابقہ رویے کی بیوی سے معافی مانگی اور طے کر لیا کہ جب بھی ان کے سامنے کوئی غلطی کرے گا تو وہ پہلے یہ سوچیں گے کہ یہ غلطی اگر میں کروں تو دوسرے کا کیسا سلوک میں برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔

اگر ہر انسان کسی بھی بات پر رد عمل ظاہر کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ یہ رد عمل اگر مجھ سے کیا جائے تو مجھے کیسا لگے گا تو ہماری یہ زندگی جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔


(مصنف: محمد مبشر نذیر)۔