بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
معزز قارئین کرام ...ہم نے ایک تھریڈ میں ایک سلسلہ "کافروں کے مال ومتاع اور ترقیوں کا راز" کے نام سے شروع کیا ہوا تھا ....جو کہ طوالت کی وجہ سے ہم اُسی سلسلہ کی کڑی "ہدایت کیا ہے اور ہدایت کس کو اور کیسے ملتی ہے" کے نام سے شروع کررہے ہیں ...تمام قارئین کرام سے توجہ سے مطالعہ کی درخواست ہے.جزاک اللہ

معزز قارئین کرام.... ہم لوگوں کا انفرادی مسائل سے لے کر اجتماعی مسائل کی دلدل میں اترتے جانے کا سبب ہی یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب کے عظیم کلام پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے انسانی (ناقص)عقل سے تیار کردہ قاعدے ،قانون،ضابطے اورنظام سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوششیں کیں ۔۔۔۔پھرہمارے مسائل بد سے بد ترکیوں نہ ہوتے ؟؟؟
یہاں تو” نیم حکیم خطرہ جان“ والا معاملہ بھی نہیں کہہ سکتے ۔
جس رب نے اس کائنات کی تخلیق کی۔۔۔۔ یہ زمین اور آسمان بنائے ۔۔۔۔اور جس رب نے انسان کی تخلیق کی۔
سوچیے تو سہی!”خالق “سے زیادہ مخلوق کے مسائل سے کون واقف ہوسکتا ہے ؟؟؟

مسائل کی دلدل میں اترنے میں یہ ہماری سب سے بڑی بھول تھی کہ ہم نے خالق کائنات کے بتائے ہوئے اصول اور ضابطے چھوڑ کر ناقص انسانی عقل کے بنائے ہوئے اصول اورضابطوں کو اپنایا۔
انشاءاللہ تعالیٰ ہم اس حصہ میں ایک اور اہم ترین نقطہ کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنے پورے سلسلہ کے سب سے اہم نقطہ کی وضاحت کرنا چاہیں گے ۔
آپ تمام دوستوں سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
اللہ رب العزت جس نے انسانیت پر بے شمار احسانات فرمائے ۔۔۔۔اور خالق کائنات کا بہت بڑا احسان جس نے اس انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنے سب سے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ العالمین بنا کر بھیجا ۔۔۔۔رب کائنات کا احسان عظیم کہ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنا عظیم کلام پاک نازل فرمایا ۔۔۔۔اللہ رب العزت کا احسان عظیم کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی حفاظت فرمائی ۔۔۔۔اورالحمد اللہ آج ہم لوگوں کے پاس بغیر کسی ردو بدل کے لفظ بہ لفظ وہی قرآن پاک موجود ہے ۔
لیکن میرے مسلمان بھائیوں دوستوں اور بزرگوں ! کبھی آپ نے سوچا کہ ہم مسلمانوں کے پاس اللہ رب العزت کی ان عظیم نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر ہم ان نعمتوں سے مستفید نہیں ہوئے اور ہم ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔۔۔۔مسائل میں الجھتے جارہے ہیں ۔۔ ۔ ۔ ذلت اور رسوائی میں گرفتار ہیں ۔۔۔۔ تواس کی کیا وجوہات ہیں؟؟؟
لوگ قرآن اور سنت پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔اورعلماءکرام لوگوں کوقرآن اور سنت کی اہمیت اور افادیت بھی سمجھاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن لوگ علماءکرام کی باتیں کیوں نہیں سمجھ پاتے ؟؟
علماءکرام لوگوں کو قرآن اور سنت کی نافرمانی کرنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجودکہ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر شدید عذابوں کی سزاﺅںکا اقرار کرتا ہے لیکن پھر بھی ان عذابوں سے ڈرنے کے بجائے لوگ نافرمانیاں کیوں کرتے ہیں ؟
قرآن پاک نورہدایت ہے ۔۔۔۔لیکن اس نورہدایت کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے دلوں میں ایمان کی روشنی کیوں نہیں ہوتی ؟ ہمارے دلوں میں قرآ ن اور سنت کا نور کیوں نہیں اترتا؟
(آپ تمام دوستو ں سے توجہ کی درخواست ہے)
معارف القرآن میں مفتی شفیع لکھتے ہیں کہ لفظ ”ہدایت“ کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔۔۔۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصل معنی ہیں ”کسی شخص کو منزل مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا “
اور” ہدایت کرنا“ حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے(یہ سب سے اہم بات ہے یاد رکھیے گا)۔۔۔جس کے مختلف درجات ہیں :
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ،جو کائنات و مخلوقات کے تمام اجسام جمادات ،نباتات ،حیوانات وغیرہ کو شامل ہے۔۔۔یہاں یہ خیال نہ کیجیے گا کہ ان بے جان اور بے شعور چیزوں کو ہدایت سے کیا کام ؟اس کی کئی مثالیں دیں جاسکتیں ہیں ۔ ۔۔لیکن ہم اختصار سے صرف ایک آیت مبارکہ پیش کررہے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ الخ بنی اسرائیل 44 پارہ 15
(ترجمہ :تسبیح کرتے ہیں اس کی ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سب جو ان کے درمیان ہیں، بلکہ نہیں ہے کوئی چیز مگر وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد و ثناءکرکے مگر نہیں سمجھتے تم ان کی تسبیح کو )

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت،تسبیح ،تنریہ،تعظیم ،جلالت،،بزرگی ،بڑائی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتیں ہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ مخلوق میں سے ہر چیزاس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے ۔لیکن اے لوگو!تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تمہارے زبان میں نہیں ۔حیوانات،نباتات ،جمادات سب اس کی تسبیح خواں ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے۔(بخاری،کتاب المناقب:ح:3579)
مفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے ،یعنی صرف ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے ،جو عرف میں ذوی العقول کہلاتیں ہیں ،یعنی انسان اور جن۔۔۔یہ ”ہدایت“ انبیاءاور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے انسانوں کو پہنچتیں ہیں ۔۔۔۔پھر کوئی قبول کرکے مسلمان ہوجاتا ہے اور کوئی رد کر کے کافر ہوجاتا ہے ۔تیسرا درجہ” ہدایت“ کا اس سے بھی زیادہ خاص ہے کہ صرف مومنین و متقین کے ساتھ مخصوص ہے۔۔۔یہ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ انسان پر فائز ہوتی ہے ۔۔۔اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے۔۔۔یعنی ایسے اسباب اور حالات پیدا کردینا کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور اُن پر عمل کرنا آسان ہوجائے ۔۔۔اور ان کی خلاف ورزی دشوار ہوجائے ۔۔۔۔اس تیسرے درجے کی وسعت غیر محدود ہے ۔۔۔اور اس کے درجات غیرمتناہی ہیں ۔۔۔یہی درجہ انسان کی ترقی کا میدان ہے ۔۔۔اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس کے درجہ ہدایت میں زیاتی ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیاتی کا ذکر ہے ۔۔
جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ الخ محمد17 پارہ 24
(ترجمہ :اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ،مزید عطاءکرتا ہے ان کو ہدایت اور عطاءفرماتا ہے انہیں ان کے حصہ کا تقویٰ

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ عزو جل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں انہیں خود خدا بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے ،پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطاءفرماتا ہے اور ان کی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے ۔
اورمفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ راہ پر ہیں (یعنی مسلمان ہوچکے ہیں )اللہ تعالیٰ ان کو (احکام سننے کے وقت )اور زیادہ ہدایت دیتا ہے (کہ وہ ان احکام جدیدہ پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ان کی ایمانیات کی تعداد بڑھ گئی یا کہ ان کے ایمان کو اور زیادہ قوی اور پختہ کردیتے ہیں جو عمل صالحہ کا خاصہ ہے کہ اس سے ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے )اور ان کو تقویٰ کی توفیق دیتا ہے۔(معارف القرآن ج 8 ص 34)
معزز قارئین کرام!
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ”ہدایت“ایک عظیم نعمت ہے ۔۔۔اور الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت والوں میں کیا .....جو ہدایت کا پہلا درجہ ہے ۔۔۔۔لیکن اس عظیم ہدایت کے ملنے کے بعد ایسا نہیں کہ ہم مسلمان اپنی اپنی زندگیوں کی رنگینیوں میں گم ہوجائیں ۔۔ ۔اور قرآن اور سنت کے احکامات بھلا بیٹھیں ۔۔۔۔نہیں بلکہ اس کے بعدہما رے سامنے دوسرے درجہ کی ہدایت کا میدان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ جو لامحدود ہے۔۔۔ اور مومنین اور متقین کے لئے ہے ۔۔۔
میرے مسلمان بھائیوں اور دوستو!
الحمد للہ پہلی ہدایت(یعنی مسلمان ہونا) تو ہمیں مل گئی ۔۔۔ لیکن ہدایت کا دوسرا اور سب اہم اور لامحدود درجہ والی ”ہدایت“ کیسے ملتی ہے ؟؟؟یا کس کس کو ملتی ہے ؟؟؟
یہ جاننے کے لئے اس سلسلہ کا مطالعہ فرماتے رہیں
(ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں .جزاک اللہ
.....جاری ہے ......