صدائے ہجر


میں نے کب یہ سوچا تھا
زندگی کے ،سانسوں سے
فاصلے بڑے ہوں گے
تجھ سے ملنا چاہوں تو
آج میری راہوں میں
راستے کھڑے ہوں گے
میں نے کب یہ سوچا تھا
تیرے سائے سے باہر
دھوپ میں جلن ہوگی
ریت میں چبھن ہو گی
درد بھی کڑے ہوں گے
میں نے کب یہ سوچا تھا!
میرے چاہنے والے
دور بس رہے ہوں گے
اور میں فقط اپنے ہاتھ کی لکیروں کو
بے قرار آنکھوں سے یوں ہی تک رہا ہوں گا۔
میرے چاہنے والے
مجھ پہ ہنس رہے ہوں گے۔
میں نے کب یہ سوچا تھا!
زندگی کے دھوکے میں عمر جب بتا دوں گا۔
خود کو جب مٹا دوں گا
ہجر یہ صدا دے گا
بے بسی کی سانسوں میں
زندگی نہیں رہتی
وقت کے سمندر سے
لاکھ خواہشیں چن لو

بے بسی کی مٹھی میں
ریت بھی نہیں رہتی۔
آج میں نے سوچا ہے
آج میں نے جانا ہے