یہ محاورہ تو آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ حسد انسان کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ سائنس دان یہ پتہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حسد کے احساس کے دوران انسان کے جسم کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

حال ہی میں جریدے سائنس میں جاپان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ ریڈیالوجیکل سانئسز کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دماغ کی سکینگ کے بارے میں اپنے تجربوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ان کے زیر تجربہ افراد نے یہ تسلیم کیا کہ وہ کسی سے حسد یا رشک محسوس کررہے تھے تو ان کے دماغ کے ان حصوں کی فعالیت اضافہ دیکھا گیا جس کاتعلق درد کے احساس سے ہے اورجنہیں ڈورسل انٹیریئر سنگولیٹ کارٹیکس کہاجاتاہے۔

لاس اینجلس میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ نفسیات کے میتھیو لبرمین جو اس رپورٹ کے شریک مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اس بات سے بہت متاثر ہوئے کہ حسد اور رشک کے جذبات اور اعصابی تبدیلیوں میں کتنا گہرا تعلق ہے۔تاہم اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ حسد اور رشک کا جذبہ دوسرے سماجی جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اٹلانٹا میں قائم یرکس نیشنل پریمیٹ ریسرچ سینٹر کے ایک ماہرڈاکٹر فرانس ڈی وال کہتے ہیں کہ بندروں پر کیے جانے والے ایک تجربے میں بندر کھیرے کے ٹکڑے حاصل کرنے کے لیے بڑی خوشی سے کوششیں کررہے تھے لیکن جب ان میں سے ایک بندر کو اس کی پسندیدہ خوراک مثلاً انگور دینا شروع کی گئی تو دوسرے بندروں نے کھیرے کے لیے اپنی کوششیں ترک کردیں اور انگور کھانے والے بندر کی حسد میں مبتلا ہوگئے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ حسد یا رشک عام طور پران لوگوں کے درمیان ہوتا ہے جو بہت حد تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں یعنی وہ لگ بھگ ہم عمر ہوتے ہیں، ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک ہی معاشرتی طبقے رکھتے ہیں اور ان کی علمی اور تعلیمی سطح بھی تقریباً ایک سی ہوتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ رشک کا جذبہ ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہم خود کو اپنے ساتھیوں سے بہتر ثابت کرنے کے لیے مثبت کوششیں شروع کردیتے ہیں۔

مشہور مفکر برٹرینڈ رسل نے کہا تھا کہ اگر آپ شان وشوکت کی خواہش رکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ نپولین پر رشک کریں۔ لیکن نپولین سیزر پر رشک کرتا تھا۔ سیزر سکندراعظم پر رشک کرتا تھا اور میں یہ ضرور کہوں گا کہ سکندر اعظم ہرکولیس پر رشک کرتا تھا جو کہ ایک خیالی کردار تھا اور اس کا حقیقی زندگی میں کبھی کوئی وجود نہیں تھا۔

رشک کا جذبہ تہذبیوں کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور وہ قوم کسی بھی شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتی جو کسی دوسری قوم پر رشک نہیں کرتی۔