ڈان میں ایک آرٹیکل پڑھا سوچا آپ سب کے ساتھ شیر کروں۔
دو سال قبل سات سالہ زبیتا خان کا والد ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گیا تھا اور اب خاندان کی کفالت کے لیۓ اسے کام کرنا پڑتا ہے، 300 روپے مہینہ کے لیۓ اسے سکول کے بعد تپتی دوپہر میں دوکانداروں اور گاہکوں کو کھانا پہنچانا ہوتا ہے۔
زبیتا خان کا کہنا ہے کہ" مجھے بازار میں کام کرنا پسند نہیں۔ مجھے سکول پسند ہے، جہاں میں پڑھتا ہوں اور دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتا ہوں " زبیتا خان انہی گلیوں میں کام کرتا ہے جہاں اس کا باپ 28 اکتوبر 2009 کو جاں بحق ہوا تھا۔
" میرے یہاں کوئی دوست نہیں ہیں، میں یہاں اپنی ماں کے کہنے پر آتا ہوں جو مجھے کہتی ہے کہ اپنے گھر والوں کے لیۓ کام کرو اپنے بھائیوں کے لیے کام کرو" خان نےکہا، جس کے دو چھوٹے بھائی ہیں۔ سجاد 5 سال کا اور عارف 3 سال کا۔
اس کا والد خیر اللہ پاکستان میں ہونے والے ایک خونی دھماکے میں جاں بحق ہوا تھا جس میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں 125 لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔
کسی نے اس حملے کی ذمہ داری نہيں لی تھی لیکن حکام نے طالبان پر الزام لگایا تھا۔
دوستوں، یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے، کتنے ہی گھر اس دہشت گردی کی وجہ سے اجڑ گئے ہیں۔ دل آج بہت بھاری ہے، دوسری کہانی شیر کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی لیکن ضرور کروں گا تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ اس دہشت گردی کے ناصور کے لوگوں پر کیا اثرات ہیں۔

اسلام آباد سے کوئی 125 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ تانگی جو کہ طالبان کی دراندازی کی وجہ سے ماثر ہے، ایک 11 سالہ بچی وجیہا، اس قصبے میں صرف ایک ہی بچی ہے جو وہاں موٹر سائکل رکشا چلاتی ہے۔
اس کا والد ایک خاصہ دار سپاہی ہوا کرتا تھا لیکن جولائی 2006 میں وادی سوات میں ایک چیک پوسٹ پر طالبان کے حملے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا۔
دوسال ہسپتال میں گزارنے کے بعد اسے کمزور ٹانگ کے ساتھ ڈسچارج کردیا تھا اور اس نے اپنی پینشن کے 40000 روپے سے ایک موٹر سائیکل رکشا خریدا۔
پہلے وہ اکیلا کام کرتا تھا اور وجیہا اس کے ساتھ ویسے ہی بیٹھ جایا کرتی تھی لیکن جب اسے احساس ہوا کہ اس کے باپ کو خود چلانے میں کتنا درد ہوتا ہے تو اس نے پیسے کمانے کے لیے یہ کام خود کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب وہ صبح کو سکول جاتی ہے اور اپنے والد کی دوپہر میں مدد کرتی ہے، جب وہ تھک جاتا ہے۔
انعام الدین کہتا ہے " مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنی بیٹی سے اس طرح سے کام کرواؤں ، لیکن میں مجبور ہوں"۔ وجیہا کا کہنا ہے، اسے مدد کرنا پسند ہے۔
"میں دن میں تین چکروں کے 150 روپے بناتی ہوں " وجیہا نے کہا جب وہ رکشا کھڑا کر رہی تھی اور اس کے بعد فورا گھر کو بھاگ گئی۔