مطلبی بندے دے یاری ایویں
جیویں درخت کھجور
تُپ لگے تے چھاں نیں دیندا
پوکھ لگے تے پھل دور


مفہوم
اس شعر میں شاعر مطلبی انسان کے ساتھ تعلق یا دوستی کو کھجور کے درخت سے مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ
مطلبی انسان کی دوستی بلکل ایسے ہی ہے جیسے کھجور کا درخت ہوتا ہے
آپ کو دھوپ لگے تو چھاؤں نہیں دے سکتا۔
اور اگر بھوک لگے تو پھل دور ہو جاتا ہے
اس میں آپ لوگ دھوپ کی مشکل کو انسان کے اوپر آئے کڑے وقت سے بھی تشبیح دے سکتے ہیں
اور بھوک کی پریشانی کو معاشی بدحالی سے بھی

شُکریہ
:نوٹ
یہ ترجمعہ پنجابی سے نا آشنا لوگوں کے لئے کیا گیا ہے۔
سُلطانہ مُصطفیٰ