یہ ہم زمین پہ چل کر روا روی میں گرے
یہ آپ اتنی بلندی سے کس خوشی میں گرے
شکستہ پا بھی ہم، اندھے بھی ہم گرے بھی تو کیا
نظر پہ ناز جنہیں تھا وہ روشنی میں گرے
ہماری راہ میں گہرا اَنا کا کھڈ بھی تھا
اسی میں گرنے کا ڈرتھا ہمیں ، اسی میں گرے
تمام کوچہ و بازار گھوم گھام آئے
گرے جو آکے تو ہم اپنی ہی گلی میں گرے
ہماری منطق الگ ہے، ہماری سوچ الگ
کہ ہم ندی میں سمندر کی دوستی میں گرے
چھپا چھپا کے جو اس سے رکھے تھے چند آنو
اسی کے سامنے مضطرہنسی ہنسی میں گرے