آج کے اس قدر ناشناس عہد میں جب لوگ عموماً اپنی ذات ومفاد کے گنبد میں بند نظر آتے ہیں اور اپنےسوا کسی اور کی طرف دیکھنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں۔ اس سب کے باوجود عوام کس طرح اولیاء کے حالات اور واقعات شوق و جذبے سے پڑھنے کیلئے وقت نکال لیتےہیں اور دور دراز کا سفر کرکے اولیاء کے قدموں میں حاضری کو سعادت سمجھتے ہیں۔ آج کی نئی نسل کی کردار سازی میں اولیاء کے حالات سے راہنمائی کی جس قدر ضرورت محسوس کی جارہی ہے شاید اس سے قبل اتنی نہ تھی اولیاء وہ پاکباز ہستیاں ہیں جن کا ہر لمحہ ایک پیغام اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھا جاتا ہے ۔آئیے! اولیاء کی زندگی میں رمضان اور روزے کو کیا حیثیت حاصل تھی اور وہ اس کی کس طرح قدرو منزلت کیا کرتے تھے مختصر انداز میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ:آپ کے تقویٰ و طہارت اور بزرگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے آپ کو سیدنا کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ امام اعظم ؒ فرماتے کہ ابراہیم بن ادھم ؒکامکمل وقت ذکر و شغل میں صرف ہوتا ہے اور ہم دنیاوی مشاغل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ماہ رمضان کا آپ کے ہاں خصوصی اہتمام تھا۔ اس مقدس ماہ میں آپ جنگل سے گھاس کاٹ کر فروخت کیا کرتے اس سے حاصل ہونے والی رقم خیرات کرکے پوری شب مصروف عبادت رہتے آپ ؒسے سوال کیا گیا کہ آپ کو نیند نہیں آتی؟ آپ نے فرمایا کہ جس کی آنکھوں سے ہمہ وقت سیلاب اشک رواں ہو اس کو بھلا کیونکر نیند آسکتی ہے اور آپ کا معمول تھا کہ ان مقدس لمحات میں ذکر و عبادت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے چہرے کو چھپا کر فرماتے کہ مجھے خوف رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری نماز میرے منہ پر نہ ماردے۔
حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:آپ نوجوانی میں تمام مال و زر راہ خدا میں خیرات کرکے فکر آخرت میں مشغول رہے۔ ہر وقت گریہ و زاری کرتے رہتے آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر روزے سے ہوتے۔ ایک مرتبہ افطاری کیلئے مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی خادم سے فرمایا بازار سے افطاری کیلئے مچھلی لے آؤ۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی اور افطار کے وقت مچھلی آپ کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے کھانے سے انکار فرمادیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر گریہ و زاری کرنے لگے کہ اے خدا میں نے غلطی کی کہ دنیاوی نعمتوں کی طرف دھیان دیا۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:ساری رات یاد الٰہی اور عبادت میں گزار دیتے۔ آپ ؒ فرماتے جب رات ہوتی ہے میں خوش ہوتا ہوں کیونکہ مجھے حقیقی خلوت نصیب ہوتی ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو لوگوں کی آمدو رفت کی وجہ سے غمناک ہوتا ہوں اور یہ آپ ؒکا صرف رمضان المبارک کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا معمول تھا۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:آپ ؒ نماز کی نیت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے رو رو کر عرض کرتے اے اللہ تیری بارگاہ میں حاضری کیلئے کون سے پاؤں لاؤ‘ اور کونسی آنکھوں سے قبلے کی جانب نظر کروں اور کس زبان سے تیری تعریف کروں اور تیرا نام لوں اس کے بعد نیت باندھ لیتے۔ نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے مجھے جن مصائب کا سامنا ہے وہ تیرے سامنے عرض کرتا ہوں لیکن محشر میں اپنی بداعمالیوں سے جو اذیت پہنچے گی اس کا اظہار کس سے کروں۔ لہٰذا مجھے عذاب سے چھٹکارا عطا فرما۔ رمضان المبارک میں ان کیفیات میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا۔ مسلسل دس سال تک آپ کو لذیذ کھانوں کی طلب رہی لیکن نہیں کھائے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں سخت مجاہدوں کے بعد عید کی شب جب نفس نے بہت تقاضا کیا کہ آج لذیذ غذا ملنی چاہیے تو آپ نے فرمایا اگر دو رکعات میں مکمل قرآن ختم کرلے تو میں یہ تیری خواہش پوری کردوں گا۔ نفس نے آپ کی یہ شرط منظور کرلی اور قران ختم کرنے کے بعد جب آپ لذیذ کھانے لے کر آئے تو پہلا ہی لقمہ اٹھا کر ہاتھ کھینچ لیا اور نماز کیلئے کھڑے ہوگئے۔
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:اولیاء کرام میں آپ کا مقام نہایت بلند ہے آپ ؒ کی تعلیمات بھٹکے ہوئے انسانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ آپ ؒ کی زندگی عبادت الٰہی اور لوگوں کی غم گساری اور خدمت خلق سے معمور تھی۔رمضان المبارک میں یہ خدمت قابل دید تھی‘ یتیم اور بے آسرا بچوں کی مدد کرنا آپ بہت بڑی عبادت سمجھتے تھے حضرت سری سقطی ؒ سے روایت ہے کہ عید کے دن میں نے آپ کو کھجوریں چنتے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا یہ سامنے والا یتیم بچہ ہے اس لیے اداس ہے اس کے پاس عید کیلئے نیا لباس نہیں لہٰذا میں کھجوریں چن کر فروخت کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کیلئے نئے کپڑے فراہم ہوسکیں۔ایک مرتبہ بازار سے گزر رہے تھے کہ بہشتی (پانی پلانے والا)یہ کہہ رہا تھا اے اللہ! جو میرا پانی پی لے اس کی مغفرت فرمادے‘ چنانچہ نفلی روزے سے ہونے کے باوجود آپ ؒ نے پانی پی لیا جب لوگوں نے کہا کہ آپ ؒ کا تو روزہ تھا فرمایا کہ میں نے بہشتی کی دعا پر پانی پی لیا۔ جب آپ ؒ کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کے ساتھ کیا سلوک کیا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے تقویٰ اور بہشتی کی دعا سے میری مغفرت فرمادی۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:آپ ؒ تین سال کی عمر سے اپنے ماموں محمد بن سمار ؒکے ہمراہ مشغول عبادت رہنے لگے اور سات سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی مداومت اختیار کرلی۔آپ ؒنے یہ معمول بنالیا کہ دن بھر روزہ کے بعد شام کو ساڑھے چار تولہ وزن کے برابر جو کی دو ٹکیاں کھالیتے۔آپ فرماتے کہ بھوکا رہنے سے عبادت میں لذت محسوس ہوتی ہے اور ایسے شخص کو ابلیس دھوکہ نہیں دےسکتا۔ رمضان المبارک میں نہایت ہی قلیل مقدار میں کھاتے اور شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہتے حتیٰ کہ پوری رات نہ لیٹتے اور نہ ہی سہارا لگاتے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ قیامت قائم اور ایک پرندہ پکڑ پکڑ کرلوگوں کوجنت میں لے جارہا ہے اور مجھے حیرت ہوئی تو ندا آئی کہ یہ پرندہ دنیاوی تقویٰ ہے تو آج اہل تقویٰ اس کے طفیل جنت میں داخل ہورہے ہیں اس کے بعد آپ نے اپنا تمام اثاثہ صدقہ کردیا اور مکہ معظمہ کا رخ کیا۔