كیا چاند رات ایک شاپنگ فیسٹیول کا نام ہے؟؟؟

چاند رات ۔۔۔ لیلہ الجائزہ یعنی انعام کی رات۔۔۔۔ رمضان کے مزدوروں کو اللہ عزوجل کی طرف سے اجرت دیے جانے والی رات۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس رات کو ہم نے ایک شاپنگ فیسٹیول بنا لیا ہے۔۔۔

جی ہاں، چاند رات کی آمد آمد ہے۔۔۔ اور کچھ مسلم اور مسلمات اس رات کو شاپنگ ، آتش بازی اور ہلا گلا کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں۔۔۔ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی شوال کی یہ پہلی مبارک رات شروع ہو جاتی ہے اور پھر ۔۔۔۔۔ گھروں ، گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہر طرف میوزک اور گانوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔۔۔ مسلمان بھائی موٹر سائکلوں اور کاروں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور بے پردہ گھومتی ہوئی مسلمان بہنوں کے پیچھے پیچھے چاند رات کے لئے خاص طور پر لگائے گئے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں کچھ مسلمان بہنیں چوڑیاں پہنانے کے لئے اپنے ہاتھ نا محرم مردوں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں اور مہندی لگوانے کے لئے گھنٹوں لائن لگا کر کھڑی رہتی ہیں۔۔۔ کیا یہ سب دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ جو شیاطین رمضان المبارک میں قید کر دیے گئے تھے وہ ان چند مسلمان بہن بھائیوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنی رہائی کا جشن منا رہے ہوں۔۔۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آقا علیہ الصلاہ والسلام نے بیعت کے لئے بھی کسی غیر محرم عورت کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ حالانکہ آپ اپنی امت کے لئے بمنزلہ باپ کے ہیں۔۔۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ خاتون جنت و جگر گوشہ نبوت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے عورت کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی ہے کہ نہ وہ کسی غیر محرم کو دیکھے اور نہ کوئی غیر محرم اسے دیکھ پائے۔۔۔

ہمارے پیارے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری شریعت نے ہماری ہر جگہ راہنمائی فرمائی ہے۔۔۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آقا علیہ الصلاہ والسلام نے ہمیں چاند رات سے متعلق کون سے مدنی پھول دیے ہیں۔۔۔

حضور علیہ الصلاہ والسلام نے فرمایا ہے کہ

”من قام لیلتي العیدین محتسباً لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب“

جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچا رہا) تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک ) دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل ( دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے ) مردہ ہو جائیں گے۔۔۔
(ابن ماجہ، شعب الایمان، سنن الکبرٰی، ودیگر)۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،جس سے اس رات میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:

”پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إنيقد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“ فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔


رمضان المبارک میں کئے گئے نیک اعمال کی قبولیت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بندے کو رمضان المبارک کے بعد بھی ان اعمال صالحہ کی توفیق حاصل رہتی ہے اور وہ ان اعمال کو ہمیشہ بجا لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔۔۔ اس لئے اللہ عزوجل کی توفیق سے آپ نے اپنے نفس کی جو تربیت رمضان المبارک میں کی ہے اس کو چاند رات منانے میں ضائع مت کریں بلکہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید نکھار پیدا کریں کہ اسی کا نام تزکیہ نفس ہے اور یہی تزکیہ نفس ولایت کی پہلی سیڑھی ہے جس کی تعلیم کے لئے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔۔۔

تو میرے بھائیو اور بہنو۔۔۔ جو کچھ عید کی ضروری خریداری کرنی ہے چاند رات کی آمد سے پہلے ہی کر لیں اور اس رات کو حقیقت میں لیلہ الجائزہ بنا کر اپنے رب سے انعام حاصل کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہو جائیں کہ یہ سونے یا شاپنگ کرنے کی رات نہیں بلکہ جھولیاں بھرنے والی رات ہے۔۔۔


.....