جسطرح میدانِ جنگ میں سپائیوں کو گولیاں لگتی ہیں اسی طرح ایک اچھے ،بہترین اور منجھے ہوئے قصائی لیڈر کی نشانی ہےکہ ’’وہ بیلوں سے لڑے چوٹیں کھائے اور جب انہیں گراکر چاروں شانے چت ان کے گلے پہ چھری چلاتاہے تو اس کا رواں رواں خوش ہوجاتاہے ‘‘؛۔
پورا سال ’’نہ نہ ‘‘کی گردان کوبریک ایک اور عید الاضحی کی آمد پہ لگے ،ینگ قصائی گروپ اپنے عہد و پیمان سے مکر کر پھر سے پھٹے پرانے خون آلود کپڑوں کی پوٹلی ،ٹوکے، کلہاڑے،چھریاں تیز کیے شہروں قصبوں میں وارد ہوئے، اس گروہ کو ایک چھوٹی سی مثال سےسمجھتے ہیں’’ینگ قصائی گروپ جو ہرسال جانوروں کے خون کی بھینٹ لےکر سال بھرکےلیے روپوش ہوجاتاہے،کیونکہ یہ گروہ پھر عام انسانوں کی مانند سال بھر شہروں قصبوں میں رہتے ہوئے کام کرتے اور آئی ٹی فورم پر اچھی اچھی شئیرنگ کرتے ہیں۔مجھے اس ٹولے کے پیچھے علی بابا اور چالیس چور کی کہانی یاد آجاتی ہے جس میں شہرکا وزیر، قاضی، چوروں کا سردار اپنے دو روپ رکھتاہے،ان کو لوگ بتاکر قافلہ کی صورت بغرض غایت سوداگر ،مسافر، امیر، غریب ، سب اکھٹا ہوکر سفر کرتے اور وہ انہی کی فراہم کی گئی معلومات کی روشنی میں چور بن کر اپنے ٹولے سے لوٹ مار کرتاہے۔پھر دوسری جانب شہر کےمنصب ِ اعلیٰ کی سیٹ پر بیٹھے خود کے ہاتھوں لٹے پِٹے لوگوں کی غم ناک داستان سنتا، جھوٹی تسلیاں ،جھوٹے فرمان جاری کرتاہے ،۔یہ کہانی مختلف انداز، الگ الگ سے اقتباسات سے مشہور ہے‘‘اور یہی مثال ینگ قصائی گروپ پر بھی فٹ آتی ہے جو اپنے اچھے قصائیوں کی بھرپور تشہیر کرتے اور پھر خود ہی دوسرے روپ میں قصائی بن جاتے ہیں۔
مسلسل دوسال جانوروں کے خون سے ہاتھ رنگنے ،بکروں کو الٹالٹکانے،بیلوں کی ٹانگیں توڑنے،گوشت کاٹنے،نفاست سے بوٹیاں بنانےکےباعث ینگ قصائی گروپ مشہورتو ہوہی چکا‘پھر ان کی دیگرخوبیوں میں نمایاں ان کا پھرتیلاکام بھی ہےجس کے باعث انہوں نے مارکیٹ ویلیو بنالی تھی۔
میرصاب گروپ کے لیڈر کو عید سے قبل ہی آرڈر ملنے لگے تو انہوں نے تمام تر آرڈرز کی ایک فہرست بنائی ،پہلے ملنے والی بکنگ کا پہلا نمبر دوسری کا دوسرا اور اسی طرح ترتیب وار فہرست بنادی ،پھر قریب کے علاقہ سے کام کی ابتداء کی اور دیگر گھروں کی جانب الگ الگ ٹیمیں تشکیل دے ڈالیں۔

اونٹ کی قربانی کااحوال ٹیم کا امیر طارق،دیگر افرادمیں کارتوس خان ،ہلال خان،گل خان

خوبصورتی سے سجائے ہوئے گہرے رنگ کا بلند قامت اونٹ آس پاس پڑوسیوں کےپُرہجوم حصارمیں ‘میدان میں لایاگیاجہاں اسے ذبحہ کرناتھا،اونٹ کی قربانی شاذونادر ہی دیکھی جاتی ہے اسلیے تماشبینوں کی تعداد زیادہ اوربچوں کا شورشرابہ بھی کسی طورکم نہ تھا۔اس شوراوراودہم میں کمی اور حصار کو توڑنابھی ضروری تھا اس لیے ایک گرج دار آواز گونجی۔۔۔
سمجھ کرلومتھے کنال دے کر لیکن !!!دور دور ہٹ جاؤ۔۔۔بٹن دباکے،طارق کی بلندآواز سے قدرے خاموشی پیداہوئی اور لوگ اونٹ سے دور ہٹنےلگے، طارق کے ہاتھ میں ایک خوفناک سلاخ تھی ،پیوند لگے خون کے دھبوں اور داغوں سے بھرا لباس پھر ان کا حلیہ اس قدر دہشت ناک سا تھا کہ لوگوں کو ایک ڈر سا پیدا ہواکہ کہیں اونٹ سے پہلے ان پر ہی تجربات نہ کردئیے جائیں۔
لوگوں کے دور ہٹ جانے کے بعد طارق کو قدرے اطمینان حاصل ہوا،وہ اونٹ کے گرد چکر لگا کے آنکھوں ہی آنکھوں میں اونٹ کو تولنے لگا جیسے کہ اسےکہاں اورکس مقام سے پکڑ کر گرایاجائے گا۔کچھ لمحے سوچ کر اسے خیال آیا’’ میں اونٹ کو ہرگز اسطرح احمقانہ انداز سے نہیں گراسکتا شکر ہے کہ بروقت عقل آگئی‘‘اور اسے یہ خبر نہ تھی کہ عقل اس کی کھوپڑی میں آتی ہی جانے کےلیےہوتی ہے۔۔۔،پھر اس نے اپنے منصوبہ میں ترمیم کی اوراشارے سے ہلال خان ،کارتوس خان اور گل خان سے کہاباندھ دو اونٹ!۔۔چنانچہ انہوں نے مل جل کر اونٹ کے سامنےکی ٹانگ باندھ دی۔
طارق نے گھوم پھر کراطمینان کرلیاکہ اونٹ پر ان کا تسلط ہے توکیوں نا دھکا دے کر اونٹ کو گرادوں ۔اب یہ دوسری احمقانہ سوچ تھی۔۔۔۔لیکن اسنے حماقت سرزد کرنے سے قبل اونٹ کے پہلو پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے نہایت ہی زور زور سے دوسری جانب اپنی دانست میں گرانے کی سعی کی ۔
یہ کیا کررہےہیں آپ ؟ہلال خان نے پوچھا
کچھ نہیں ’طارق نے جواب دیتے ہوئے کہا‘میں اپنے بازو سیدھے کررہاہوں۔۔۔
لیکن طارق بھائی ہم لوگ اِدھر بازو سیدھے کرنے نہیں آئے؛ کارتوس خان نے یاددہانی کروائی ۔
وقت کم ہے اور کام بہت،گل خان بولا۔
اچھا کچھ کرتے ہیں ؛ طارق جو اونٹ گرانے کی ناکام کوششیں کرچکے تھے کے بعد اپنی ناکامی و خفت کو چھپاتے ہوئے یہ ٹھان گئے کہ اب کچھ ایسا کارنامہ ضرور کرناہوگاکہ لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی عش عش کراٹھے۔۔۔چنانچہ اسنےسوچا کہ صحیح طریقہ تویہ ہے کہ اونٹ کے سامنے کے حصے پر سلاخ ماری جائے لیکن سمجھ کرلو متھے کنال دے کر!! لوگوں کو اور اپنے ساتھیوں کولگ پتہ جائے کہ طارق وکھرے ٹائپ کا قصائی ہے ، ایسا سوچ کر اپنے معاونین کو اونٹ سے دور ہٹنے کا اشارہ کیا اور تول کر سلاخ اونٹ کے مخصوص مقام تک پھینکی ۔۔۔واہ واہ سبحان اللہ ،ماشاء اللہ ماشاء اللہ! مجمع چیخ پڑا ،ایسا منجھا ہوا قصائی ہم نے آج تک نہیں دیکھا،ہاں ہاں آج تک نہیں دیکھا،ہٹو ہٹو ہمیں دیکھنے دوایک شور سا بلند ہونے لگا لوگوں کے داد بھرے کلمات فضا میں گونجنے لگے ،۔۔۔۔

اب ہوا کچھ ایسے کہ طارق نے نشانہ باندھ کر کسی ماہر نیزاباز کی طرح سلاخ پھینکی تھی ان کی اپنی ناکامی جو اونٹ کو احمقانہ سوچ کے زیر اثرگرانے میں بے معنی زور لگالگاکر خرچ کرچکے تھے وہ ایک قہر بن کر شامل تھی ۔۔۔سلاخ کسی کمان سے نکلے تیر کی طرح سیدھی اونٹ کی گردن کے نچلے مقام میں جا گھسی۔۔۔ جب اونٹ کے مخصوص مقام سے خون کا فوارا چھوٹاتو تب لوگوں نے چیخ وپکار سے طارق کو داد دی۔۔۔یقیناًوہ اپنے تجربہ میں کامیاب ٹھہرا،اوروہ جولوگوں سے چاہتاتھا اندازے کی حدوں سے زیادہ وصول کرگیا،۔۔۔
نتیجے سے بےخبر بے پرواہ اندھا دھند ۔۔۔۔ اگر نشانہ چوک جاتا تو وہ اس’’ حرکت‘‘ کی کیا تاویل پیش کرتا؟۔۔۔۔یہ اس نے سوچا نہیں تھا مگر ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ناکامی کے بعد بھی وہ ایسابہانہ پیش کرتا کہ ہر شخص چاہتا کہ وہ سلاخ پھینکے۔۔

تیزی سے نکلتےہوئے خون نےاونٹ کو جلد ہی نڈھال کرلیا اورپھروہ آہستہ آہستہ زمین بوس ہونے لگا۔ذبحہ کے بعد ہلال خان،گل خان ،کارتوس خان نے اونٹ کا جو حشر کیا وہ ناقابل بیان ہے۔بس اتناسمجھ لیں کہ ہلال خان نے چیخ کر کہا ’’ہمارا وقت بہت قیمتی ہے دوسری وجہ قربانی کے جانور کی کھال بھی قربانی کے جانور میں شمار ہوتی ہے اس لیے کھال سمیت جانور کو حصوں میں تقسیم کیاجائے گا‘وہ خاموش ہوا تو گل خان بول اٹھا‘اگرکسی نے رخنہ اندازی کی ۔۔۔گل خان نے اتنا کہہ کرخاموشی اختیار کی اور کارتوس خان بھلا کہاں چپ رہنے والاتھا اس نے جملے کو مکمل کیا۔۔’’تو وہ خود کھال اتارلے ‘‘۔اورطارق نے کارتوس خان کے خاموش ہوتے ہی ایک بار پھر باآوازبلند کہا’’کیونکہ ۔۔۔الکمونیامیں ایسا نہیں ہوتا‘‘۔۔

طارق کو چھوڑ کر کہانی اوراسکے کردارفرضی ہیں