اس کارگاہ رنگ میں ہم تنگ نہیں کیا
جو سر پہ لگا ہے ابھی وہ سنگ نہیں کیا

تصویر کو تصویر دکھائی نہیں جاتی
اس آئینہ خانے میں نظر دنگ نہیں کیا

ہر بات پہ ہم دیتے ہیں غیروں کا حوالہ
اپنا کوئی آہنگ، کوئی رنگ نہیں کیا

بخشے ہوئے اک گھُونٹ پہ ہم جھُوم رہے ہیں
ان مانگ کے پینا بھی کوئی ننگ نہیں کیا

باقی صدیقی