خلیفہ کیسے منتخب ہوگا



تحریر:عاطف بیگ

بھلا یہ بات بھی سمجھنی کیا مشکل تھی ! اور کچھ نہیں تو جمہور پسندوں نے اپنے سسٹم پر ہی غور کرلیا ہوتا!

مسئلہ ذہن میں یہ الجھا ہوا ہے کہ "خلیفہ" کا انتخاب آخر "جمہوریت" کے بغیر ہوکیسے سکتا ہے !!یعنی ان گنت لوگوں کا ایک ہجوم ہے اور ان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرنا ہے یہ ووٹنگ کے بغیر آخر ہوکیسے سکتا ہے ؟!آج کل ہرطرف یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چناؤکے اس طریقے کو "اسلامی جمہوریت" ثابت کردیا جائے اور کثرت کو اس کی دلیل بنا دیا جائے !کچھ ظریف تو یہاں تک پہنچے ہیں کہ "جمہوریت اور اسلام " کے فرق کو صرف "اصطلاحات" کا فرق مان بیٹہے ہیں - کیونکہ یہ دونوں ہی "نظام حکمرانی" ہیں اس لیے ان کی واقعاتی مشابہت سے دھوکا کھا کر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ ان کی بنیاد میں بھی کوئی فرق نہیں ہے !

بہرحال اس مضمون کا مقصد ابھی اس فرق کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ "جمہوریوں" کو انہی کے نظام سے یہ سمجھانا ہے کہ لیڈر کیسے جنم لیتا ہے !اور خود ان کے ہاں لیڈر کیسے بنتے ہیں ۔

تو پیدا ہونے والے سوالات کچھ یوں ہیں

1 )خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟

2 ) خلیفہ پر لوگوں کا اتفاق کیسے ہوتا ہے ؟

3)کیا خلیفہ کا انتخاب ووٹنگ کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے؟

4)اگر خلیفہ کو شوری منتخب کرے گی تو شوری کو کون لوگ منتخب کریں گے؟

5 )اہل حل و عقد کا فیصلہ کیسے ہوگا؟

شومئی قسمت سے امت کا ایک طویل دور ایسے گذرا ہے جس میں اس بدنصیب کے سامنے جمہوریت کے عمل کے علاوہ فیصلہ کرنے کا کوئی اور مظہر نہیں ورہا اور حقیت حال یوں ہے کہ مقابلہ بھی جمہوریت سے نہیں بلکہ "سیکولرازم" کہ اس گھناؤنے زہر سے ہے جو کہ "خدائی سلیکشن کے مقابلے میں عوامی سلیکشن" کو امت کی رگوں میں اتارنا چاہتا ہے ۔ اس طویل دور نے ان سوالات کا جواب بھی مشکل بنادیا ہے جو کہ کبھی سے سوالات تہے ہی نہیں۔

جمہوریت کے ہاں بھی لیڈر بننے کی واقعاتی ترتیب یوں نہیں ہے کہ کوئی شخص پہلے الیکشن جیتتا ہے تو پھر وہ لیڈر کہلاتا ہے ۔ بلکہ سب سے پہلے تو جمہوریت قائم کئے جانے کا اپنا ایک عمل ہوتا ہے۔ کہیں سے تبدیلی اور انقلاب کی آواز لگائی جاتی ہے۔ ایک شخص "ملک و قوم" کی خدمت کا جزبہ لے کر اٹھتا ہے ، اس کے کارہائے نمایاں نظر آنے شروع ہوتے ہیں ، آہستہ آہستہ ایک گروپ کی صورت اختیار کرتا ہے ، یہ گروپ ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرتا ہے ، جو کسی ایک شخص کی قیادت میں ہوتی ہے اور یہ شخص عام طور پر دعوت کنندہ ہی ہوتا ہے ،جو کہ اپنی سوچ و فکر کو پیش کرتا ہے ، اگر بالفرض محال وہ کنگ کے بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دے ، جیسا کہ برصیغیر پاک و ہند میں بھی اس کی مثالیں گاندھی ، الطاف حسین یا کچھ اور لوگوں کی صورت میں مل جاتیں ہیں تو یہ سمجھنا پھر بھی محال ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس کی منظوری کے بغیر ہوتا ہوگا!

سیکولر یا بے دین سیاسی جماعتیں جو کہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی الیکشن کی حامی ہیں ، وہ بھی اپنی جماعت کے ہربندے کو جماعتی قیادت کا حق نہیں دیتیں ، بلکہ کارہائے نمایاں یا طویل خدمات سرانجام دینے والے بندے کو جس کی جماعت اور جماعت کے عقیدے کے ساتھ وابستگی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہو اسی کو جماعتی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتی ہیں اور یہ امیدوار کوئی نامعلوم کارکنان نہیں ہوتے !

ان جماعتوں کی دعوت ، ان کا طریق کار ،ان کا نکتہ ہائے نظر ان کی بنیاد اسی ایک شخص کی مرہون منت ہوتی ہیں جو اس جماعت کے نظریات کا داعی اول ہوتا ہے۔اکثر معاملات میں لوگ کسی جماعت پر جمع نہیں ہوتے بلکہ جماعت کسی فرد واحد پر جمع ہوتی ہے !

یاد رہے کہ یہاں موضوع زیربحث ایک لیڈر کی تشکیل ہے نہ کہ اس لیڈر کے سیاسی جانشینوں کا تذکرہ ،جو کہ بعد میں اسی سوچ و فکر کو لے کر آگے بڑھتے ہیں اور بعض اوقات ایک "لیڈر" کا روپ بھی دھار جاتے ہیں مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کے لیڈر بننے کے پیچہے ایک ازم کارفرما نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود ایک ازم کی پاسداری ہوتی ہے !

تشکیل کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی اس فرد ،جماعت یا گروہ کے نظریات و عقائد،بالکل واضح ہوتے ہیں۔ ایک واضح و متعین مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کے مخالفین و حمایتی بالکل کھل کا آمنے سامنے آجاتے ہیں ۔

دعوت کے ابتدائی مرحلے میں ہی یہ بات وضح ہوجاتی ہے کہ یہ پارٹی کے سیکولر اور مذہبی رجحانات کیا ہونگے۔ اس کا جھکاؤ لیفٹ ونگ پر ہوگا یا رائٹ ونگ پر۔ یہ کس طرز معاشرت ،نظام معشیت کی طرف دعوت دیتی ہے ،مختلف پیش آمدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ کیا حل تجویز کرتی ہے ،اور پھر اس دعوت کو لے کر یہ میدان عمل میں کود جاتی ہے اور ایک طویل مدت کے بعد معاشرے میں ایک اثر پزیر قوت بن جاتی ہے یا دم توڑ دیتی ہے۔

اس فرد یا جماعت کو اگر حکمرانی بھی مل جائے تو یہ سارے فیصلے کم و بیش پہلے سے فیصل ہوچکے ہوتے ہیں کہ پرائم منسٹر کون ہوگا ،ایڈوائزری کونسل کن اراکین پر مشتمل ہوگی ،وزرا کون ہوں گے ،مشیران کو ہوں گے !! کیا ان سب فیصلوں کے لیے بھی کبھی کوئی "عوامی رائے سازی" کروائی جاتی ہے !؟؟

اسلامی سیاسی جماعتیں جو کہ "امیر" کا فیصلہ مجلس شوری کے ذریعے کرتی ہیں ، وہ بھی شوری کے اندر اپنی جماعت کے ہربندے کو "امارت کا ایک امیدوار" تصور نہیں کرتیں ، بلکہ چند کارہائے نمایاں والے اشخاص ہی ان شرائط پر پورا اترتے ہیں اور انہی کو زیربحث لایا جاتا ہے اور یہ "مجلس شوری" بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی جماعتی اساسات کے ساتھ وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہو اور ایک انتھک جدوجہد و قربانی کی تاریخ اس پر گواہ ہو !

کیا آپ کوئی ایسی سیاسی جماعت بتا سکتے ہیں جو کہ اپنے ہر سیاسی قدم کا فیصلہ اپنے ہر سیاسی کارکن کی رائے جان کر کرتی ہو؟ اور تقریبا ہر معاملے میں الیکشن کرواتی ہو؟ یا کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی "مجلس مشاورت" اس جماعت کے خالص ترین اراکین پر مشتمل نہ ہوتی ہو؟ چاہے ان اراکین کا انتخاب کسی ووٹنگ سے ہوا ہو مگر ان کے خلوص کی گواہی یہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ "طویل سیاسی جدوجہد و قربانی ھوتی ہے جو کہ ان کو اپنے حلقے میں معروف بنادیتی ہے اور ان کی وفاداری کو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر۔ یہ ووٹ اس خلوص اور سیاسی جدوجہد کو پڑتے ہیں نہ کہ ان کی شخصیت کو!!

ابھی ہم معاملے کی آئیڈیل صورت لے رہے ہیں اور اس صورت کو ابھی زیربحث نہیں لایا جارہا ہے جس میں مفاد پرست عناصر پیسہ ، دھونس و دھاندلی ، جبر ، فریب وغیرہ استعمال کر کے کسی پارٹی کو ہائی جیک کرلیا جاتا ہے اور اس کو اس کی اساس سے بدل دیا جاتا ہے۔!

بہر حال آپ چاہیں کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں مگر لیڈر کے یہ خدو خال آپ کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہوں گے۔

عمران کا جادو اگر آج کام کررہا ہے تو اس کے پیچھے ورلڈ کپ کی فتح ، شوکت خانم میموریل ہسپتال ، ایک مسمراتی شخصیت ،سترہ سال کی طویل سیاسی جدوجہد شامل ہے !کیا ان کے بغیر عمران کو کوئی لیڈر بھی کہہ سکتا ہے !

یاد رہے کہ تحریک انصاف نے عمران کو جنم نہیں دیا بلکہ عمران نے تحریک انصاف کو جنم دیا ہے !

الطاف حسین کے نام کی مالا اگر آج مہاجر جپ رہے ہیں تو اس پیچھے ایک خونیں تاریخ ہے جس میں الطاف پر ہوا بدترین تشدد، اس کی جرأت،شعلہ بیانی اپنی کیمونٹی کے لیے بے انتہا قربانی کی ایک تاریخ موجود ہے !پھر یاد دلواتا چلوں

کہ ایم کیوایم نے الطاف کو جنم نہیں دیا بلکہ الطاف سے ایم کیوایم معرض وجود میں آئی ہے "

بھٹو وزیر خارجہ سے ایکدم عوام کی آنکھوں کا تارا نہ بن گیا تھا ، اس کی جرآت و شعلہ بیانی کی ادا پاکستانی عوام کے دل میں گھر کر گئی تھی،

بھٹو پیپلز پارٹی سے نہیں نکلا تھا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی !

بعینہ اسی طرح گاندھی کانگرس سے نہ نکلا تھا بلکہ کانگرس اس کی وجہ سے مشہور ہوئی !

سید مودودی جماعت اسلامی سے نہ نکلے تھے بلکہ جماعت اسلامی سید مودودی سے معرض وجود میں آئی تھی !

جرمنی کی نازی پارٹی کسی کونے میں پڑی گل سڑ رہی تھی کہ ہٹلر جیسے شعلہ بیان مقرر نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی !

ہزارہا مثالیں ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ، ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی قوم کی فکر ، تاریخ و تمدن پر عہد ساز نقوش مرتب کردیئے ،انہی سے آپ کی جماعتیں بنیں یا پارٹیوں کے تن مردہ میں جان پھونکی گئی !

ان کے ہوتے ہوئے کسی اور لیڈر ، کسی اور رہبر کا تصور کرنا بھی ان جماعتوں کے لیے محال ہے ! یہ لیڈران کسی الیکشن کے ذریعے معرض وجود میں نہیں آئے ! بلکہ کسی الیکشن میں ہارنے کہ باوجود ان میں سے کسی کی عظمت اس کی جماعت میں گہنا نہیں سکی اسی کو شائد قدرتی طریقہ انتخاب کہتے ہیں !

اب اگلا مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کو آپ ہی کے اصولوں کے مطابق سمجھ لیا جائے

۱)لیڈر کسی پارٹی یا انتخاب کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ پارٹیاں ان کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں یا دوبارہ سے زندہ ہوتی ہیں

۲) لیڈران کا چناؤ کسی قسم کا الیکشن یا کوئی طے کردہ طریق کار نہیں کرتا بلکہ ان کے کارہائے نمایاں ہی ان کا انتخاب کرتے ہیں ، الیکشن صرف اس پر ایک مہر ثبت کرتا ہے

۳) لیڈران کسی قسم کی اکثریت کے محتاج نہیں ہوتے ، بلکہ یہ کسی ایک یونٹ کی کل کہےمختار ہوتے ہیں

۴) جن لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ بھی کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے مخصوص یا جماعتی حلقہ میں خوب پہچان ھوتی ہے

۵) وہ مجلس مشاورت یا شوری جو کہ ان لیڈران کو منتخب کرتی ہے اس جماعت کے ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے۔

"الغرض، خلافت ہو یا جمہوریت، یہ لیڈران ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی قوم میں ابھرتے ہیں اور جو اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے ایک کثیر خلقت کے دلوں پہ راج کرتے ہیں۔ اپنے اسی ابتدائی اور پہلے سے قائم شدہ لیڈرانہ تشخص کی بنیاد پر یہ اس بات کے اہل قرار پاتے ہیں کے نظامِ حکومت کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں دی جائے۔ طریقہِ انتخاب کی باری تو بعد میں آتی ہے، سب سے پہلے لیڈرانہ تشخص اور اس کے نتیجہ میں ایک زیرِ اثر وسیع حلقہ پائے جانے کی یہ ابتدائی شرط پوری ہونا ضروری ہوتی ہے۔ طریقہِ انتخاب جمہوری ہو تو یہ لیڈرانہ تشخص کے حامل افراد اپنی اپنی پارٹیوں یا حامیوں کے ہمراہ انتخابی معرکےلڑتے ہیں، اور پھر اپنی اپنی مقبولیت و حمایت کے بقدر انتخابی فتح اور اس کے بعد جمہوری حکومت کے قیام میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ایک خالص اسلامی طرزِ معاشرت میں جب امتِ مسلمہ کے مقبول سرکردہ افراد و کبار علما (نہ کہ کسی خاص مقامی جماعت یا تنظیم کے اپنے افراد!)امت کے اندرکسی ایسے ہی لیڈرانہ تشخص کے حامل شخص کے اوپر امت کے امور و معاملات کی نگرانی کے لیے مجتمع و متفق ہوجاتے ہیں تو خلیفۃ المسلین کا منصب ظہور پذیر ہوتا ہے۔