عشق عاشق کو اب نھیں آتا

مدعا بھی زير_ لب نھیں آتا
عشق عاشق کو اب نھیں آتا

سکون کا حال کیا کہیے
پہلے آتا تھا اب نھیں آتا

ہر اک سانس میری تیرا ہی نام لیتی ہے
سانس بتلاؤ تو کب نھیں آتا

اس دنیا میں بے نشاں رہنا
تمھیں جینے کا ڈھب نھیں آتا

میں نے مانا کہ اظہار_ محبت مشکل ہے
ویسے بھی ہر اک کو سب نھیں آتا

بھیج دیتا ہے مسیحا کوئ مشکل کشائ کے لیے
زمین پر آپ کبھی رب نھیں آتا

ميں اسکا انتظار کرتا رہتا ہوں
اور وہ تمام شب نھیں آتا

یوں تو مسجد خدا کا گھر ہے عثمان
میں جب بھی جاتا ہوں وہ تب نھیں آتا