عشق میرا تیری آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے

عشق میرا تیری آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے
کوئ تجھ سا بھی حسیں یار کہاں ہوتا ہے

ہر رات میں یادوں کی انجمن سجاۓ دیتا ہوں
ہر رات تو میرا مہیماں ہوتا ہے

جو مدت کی جستجو سے منزل کو پاتے ہیں
ان کے قدموں پہ زخموں کا نشاں ہوتا ہے

تیری زلف سے اٹک کر دل دم توڑ دیتا ہے
تیری زلفوں پہ مجھے قاتل کا گماں ہوتا ہے

حجر کے بیماروں کو جو شفا دینا ہو مقصود
تیرے آنے کا پھر بزم میں اعلاں ہوتا ہے

وہ تیرا ہی ہے فقط یہ اسکا تجھ سے وعدہ ہے
اے دل تو خوامخواہ ہی پریشاں ہوتا ہے

یار کا ساتھ جنھیں میسر ہو پھر عثماں
ان کے قدموں میں پھر سارا جہاں ہوتا ہے