وہ پڑھائی میں نکمّا تھا اس لیے اپنے ابا ماسٹر رحمت علی سے، جو تھے بھی ریاضی کے استاد، اکثر پٹتا رہتا تھا۔ ادھر ماسٹر صاحب سامنے کے دروازے سے گھر میں داخل ہوتے، ادھر وہ پچھلے دروازے سے فرنٹ ہوجاتا۔ گلی اس کی جنت تھی۔ بَنٹے، گڈیاں، گلی ڈنڈا، بارہ ٹہنی…
یہ بڑا ہو کر کیا بنے گا۔ ماسٹر رحمت علی تاسف سے سوچتے۔ جو شخص عاداعظم صحیح نہ نکال سکے وہ کیا خاک قائداعظم کے نقش قدم پر چلے گا۔ پڑھائی میں اچھا ہوتا تو کیا کچھ نہیں بن سکتا تھا۔ افسر، ڈاکٹر، انجینئر، ماسٹر جی فُٹے سے اس کی ہتھیلیاں لال کردیتے۔ وہ اسکول میں اس کی ریاضی کی کلاس لیتے تھے اور اپنی اولاد ہونے کی وجہ سے انھیں اس پر دُہرا غصہ آتا تھا۔
…لیکن اپنی ماں اور محلے والیوں کا وہ آنکھ کا تارا تھا۔ گورا رنگ تھا، کوئی اسے بگاکہتا۔ بال بھورے، کوئی ککا کہتا۔ سر پر گھنگھریالے بالوں کا چھتا۔ کوئی کنڈلاں والا اور کوئی شربتی آنکھوں کے حوالے سے بِلا کہہ دیتا۔ لیکن اس کا اپنا نام بھی تھا۔ ماسٹر جی اسے ہمیشہ محمد اکبر بلاتے تھے۔
جب بالغ ہوا، تو اس کے حسن نے گلی میں دھوم مچادی۔ کسی کھڑکی سے گنگنانے کی آواز آتی…بگیا …ککیا…اوئے کنڈلاں والیا…لیکن وہ سیدھا تھا، سیدھا گزر جاتا۔ محلے والیاں اسے اپنا سمجھتی تھیں۔ کیونکہ وہ کھلنڈرا ہونے کے باوجود محلے کے باقی لڑکوں کی نسبت فرمانبردار تھا۔ محلے سے گزر رہا ہوتا، تو کوئی ٹماٹر لانے کا کہہ دیتی، کوئی دہی کا برتن تھمادیتی، کسی کو سوڈے کی بوتل منگوانا ہوتی۔ اکثر نے دل ہی دل میں اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند کرلیا تھا۔ لیکن اسے دیکھ کر دل مسوس کررہ جاتیں۔ موازنے پر وہ ان کی بیٹیوں سے زیادہ خوبصورت نکلتا۔ لیکن پھر بھی وہ اس کی ماں کی خاطر داریوں میں کسر نہ چھوڑتیں۔ کہیں سے ساگ پک کر آجاتا کہیں سے کڑھی۔ ماں کو بیٹے پر ناز تھا اور اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر اس کا باپ اس کی قدر کیوں نہیں کرتا؟
’’سوہنی شکل کو آگ لگانی ہے‘‘ ماسٹر جی کہتے۔’’دو سوال تو ٹھیک نکلتے نہیں اس سے۔‘‘
آخر بگے نے گھسٹ گھسٹا کر میٹرک کرلیا۔ لیکن کسی کالج میں داخلہ نہ ملا۔ وہ اور اس کے جیسے دوسرے، کالجوں کے میرٹ سے میلوں دور تھے۔ ماسٹر جی سر پیٹ کر رہ گئے۔ دوبارہ امتحان دلوایا گیا۔ پہلے سے بھی کم نمبر آئے۔ ماسٹر جی نے اسے فُٹے کے ساتھ بہت مارا اور پھر صبر کرکے بیٹھ گئے اور سنجیدگی سے سوچنے لگے کہ اسے منیاری کی دکان کرادیں۔
لیکن بگا خود بھی ہاتھ پائوں مار رہا تھااور ایک روز اس نے گھر والوں کو خبر دی کہ وہ فوج میں بھرتی ہوگیا ہے۔ ماں بہت خوش ہوئی اور اس نے محلے میں شکرپارے بانٹے۔ ماسٹر جی بھی ٹھنڈا سانس بھر کر صبر شکر کرگئے کہ چلو کھوٹا سکہ کسی طرف تو لگا۔ ان سے اس کا گلیوں میں بے مقصد پھرنا دیکھا نہیں جاتاتھا۔
جس دن بگا وردی پہن کر آیا، یوں لگا جیسے گھر میں سورج اتر آیا۔ ماسٹر جی کو بھی دل ہی دل میں اس کی وجاہت کا اعتراف کرنا پڑا۔
’’چلو شکل کسی طرف تو کام آئی‘‘ انھوں نے آواز میں حتی المقدور طنز بھر کر کہا۔ انھیں یقین تھا کہ اسے بھرتی صرف صورت کی وجہ سے ملی ہے۔ حسرت تھی کہ کاش کچھ اور پڑھ گیا ہوتا تو فوج میں کمیشن مل جاتا۔ افسر بن جاتا۔ گھر کے حالات بدلتے۔ بگا یونٹ میں چلا گیا۔ اس کے خط باقاعدگی سے آتے تھے، باپ کو بہت کم لکھتا۔ جب لکھتا تو میٹرک کی گرائمر کی کتاب سے یاد کیے گئے القابات استعمال کرتا۔ بہنوں سے خطوں میں ہنسی مذاق کرلیتا۔ چھٹی پر آیا، تو ماں نے منگنی کردی۔ بگے نے گھر کی نشاندہی کردی تھی۔ اُسی گنگنانے والی شوخ کے گھر کی۔ وہ خوش خوش واپس گیا۔ اس نے یونٹ کے ساتھیوں کو منگنی کے لڈو کھلائے۔
بگا تنخواہ کا کچھ حصہ گھر ضرور بھیجتا۔ ماسٹر جی ریٹائر ہونے والے تھے اور بڑی لڑکی کی شادی کی تیاریاں شروع تھیں۔ منی آرڈر آنے پر کچھ نہ کچھ سامان خرید لیا جاتا۔ وہ خود بھی بارڈر پر تھا۔ آتے ہوئے یا آتے جاتوں کے ہاتھ کمبل، تھرموس یا بجلی کی کوئی چیز بھجواتا رہتا۔ فیصلہ یہ تھا کہ پہلے بہن رخصت ہو پھر بہو گھر میں آئے۔ چھوٹی لڑکیوں کا وقت ابھی دور تھا۔
بہن کی شادی پر بگا چھٹی آیا۔ بارات والے دن اس نے نیا سوٹ اور ٹائی پہنی اور جیب میں لال رومال لگایا تو شور مچ گیا۔ ماں نے نظر اتاری، سسرال والیاں بھی دیکھتی رہ گئیں۔ بگا پوز بنا بنا کر دوستوں سے فوٹو کھنچواتا رہا۔ اس کی منگیتر چپکے چپکے دیکھ کر جلتی رہی۔ ’’ہونہہ! بڑے دماغ ہوگئے ہیں۔‘‘ جب آمنا سامنا ہوا تو اس نے جھٹکے سے منہ پھیر لیا اور بگا سوچتا رہ گیا کہ یہ عورتیں چیز کیا ہوتی ہیں۔
اس پھیرے میں بگا،بہن کے ساتھ ساتھ اپنی دلھن کے لیے بھی ریشمی سوٹ لایا تھا۔ ماں نے فوراً سنبھال کر صندوق میں رکھ دیے۔ بہنوں نے خود اپنے لیے سلوانے کی ضد کی تو ماں نے ڈانٹ کے بٹھا دیا کہ وہ جس کے لیے لایا ہے اسی کے لیے سلیں گے…اب اگلی باری اس کی تھی۔ بگے نے وعدہ کیا کہ وہ چھ مہینے بعد پھر چھٹی آئے گا۔ شادی کے تیسرے دن وہ واپس چلا گیا۔
ایک دن فجر کے وقت ماں کو صحن سے کھڑپڑ کی آوازیں آئیں۔ کسی نے گھڑے سے پانی نکال کرپیا۔ بوٹوں کی چاپ سنائی دی۔ پھر صحن سے ہلکی ہلکی باتوں کی آواز آنے لگی۔ وہ جلدی سے اٹھی اور کمرے سے نکل آئی۔ ہلکے ہلکے دھندلکے میں اس نے بگے کو پہچان لیا۔ وہ اور اس کا باپ صحن میں بچھی چارپائی پر برابر برابر بیٹھے دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے۔
’’تو کب آیا اکبر؟‘‘ ماں کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور ساتھ ہی خوشی کی لہر سی اس کے دل میں اٹھی کہ شاید شادی کی چھٹی پر وقت سے پہلے ہی آگیا ہے۔
بگے نے ماں کو سلام کیا اور دوبارہ باپ کے برابر بیٹھ کر سرگوشیوں میں بات کرنے لگا۔
’’کوئی بات ہوگئی ہے؟‘‘ ماں سراسیمگی سے بولی۔
’’کوئی بات نہیں۔ چائے بنائو جلدی سے۔ ساری رات سفر کرتاآیا ہے۔‘‘ ماسٹر جی نے کہا۔
ماں چولہے میں لکڑیاں ٹھیک کرنے لگی اور سوچنے لگی کہ کوئی بات ضرور ہے۔ پھریکدم ایک خیال سے اس کا دل ڈوبنے لگا…بس گئی اس کی نوکری۔ ضرور کوئی ایسی بات ہوئی ہے کہ اس کی نوکری چلی گئی۔ اس سے رہا نہ گیا۔
’’پُتر خیر سلا تو ہے؟‘‘
’’اس نے دوپہرے واپس چلے جانا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے آیا ہے ملنے۔‘‘ماسٹر جی بولے۔
’’ہیں!کیوں؟‘‘
ماسٹر جی کچھ کہنے والے تھے کہ بگا اپنی جگہ سے اٹھا اور آکر ماں کے برابر پیڑھی پر بیٹھ گیا۔
’’ماں میں نے بہت دور جانا ہے سفر پر۔ بس ملنے آیا ہو ں۔ کل صبح سرگی ہمارا یونٹ دور جا رہا ہے۔ دوسرے ملک، ہوائی جہاز پر‘‘ بگے نے ہاتھ سے ہوائی جہاز اُڑنے کا اشارہ کرکے دکھایا۔
’’کدھر؟ کیوں؟خیر سے جارہے ہونا؟‘‘ ماں کو اتنا اطمینان، تو ہوا کہ کم از کم نوکری تو نہیں گئی۔ پھر دوسرے ملک جانے کا مطلب، تو زیادہ کمائی ہے۔ اس نے دیگچی میں دودھ اور پتی ڈالی اور مزید تفصیل کے لیے بیٹے کی طرف دیکھا۔
’’وہاں جنگ لگی ہے۔‘‘
’’اللہ خیر کرے‘‘ ماں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
’’پر تیرا کیا کام ہے اُدھر۔‘‘
’’ہم نے اُدھر جاکر…بس آرڈر ہے نا ماں۔ لیکن ایسی کوئی فکر والی بات نہیں۔ دوسرے ملکوں کی فوجیں بھی ہیں اُدھر… ایسے فکر والی کوئی بات نہیں۔‘‘ بگا ہنس کر بولا۔
ماں اس کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ وہ اس کی ہنسی کی تہوں میں فکر والی بات ڈھونڈ رہی تھی۔ اسے لگا جیسے اس کا بیٹا کئی سال بڑا ہوگیا۔ اس کی ہنسی میں بَنٹے کھیلنے والے بگے کا کھلنڈرا پن نہیں تھا۔
’’تُو کہتا ہے جنگ لگی ہے اُدھر اور فکر والی بات کوئی نہیں۔ فکر والی بات کیوں نہیں۔‘‘
’’بس ہے نا مائوں والی بات۔ ساری مائیں کہتی ہیں بس جنگ نہ لگے۔ ان کے فوجی پُتر مفت کی تنخواہیں لیں، ویلیاں کھائیں۔ ہیں نا؟ بگا ہنس کر بولا۔
’’تو ہنس رہا ہے، میرا دل ڈوب رہا ہے؟ میں کہتی ہوں یہ معاملہ کیا ہے۔ کون سی کھسموں کو کھانی جنگ لگ گئی ہے۔ ادھر تو کوئی جنگ نہیں لگی ہوئی۔ آخر تو کدھر جارہا ہے لڑائیاں لڑنے ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
اب ماسٹر جی بولے۔ ’’تمھیں کیا سمجھ ہے ان باتوں کی۔ محمد اکبر بھوکا ہے رات کا۔ جلدی پراٹھے ڈالو۔ لڑکیوں کو بھی اٹھائو۔ تمھیں کیا پتا ہے دوجی جگہوں گا۔ کون سا تاریخ جغرافیہ پڑھا ہے تم نے۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے، تمھیں کچھ خبر نہیں۔ تمھارا کام دعا مانگنا ہے، سوال جواب کرنا نہیں۔‘‘ لیکن ماسٹر جی کی آواز میں معمول والی سختی نہ تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بیوی کو تسلیاں دے رہے ہیں۔
وہ چولہے میں لکڑیاں ٹھیک کرکے توّا صاف کرنے لگی۔ بگا اٹھ کر دوبارہ باپ کے پاس بیٹھ گیا اور دونوں پھر دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگے۔ ماں بڑ بڑانے لگی…’’لو جی میرا کام نہیں سوال جواب کرنا۔ جس نے جَنا، جس نے پالا، جس نے پوسا اس کا کام ہی نہیں سوال جواب کرنا…سڑنے جوگی دنیا میں کیا ہورہا ہے مجھے کیا…‘‘
بگے کی بہنیں بھی آوازوں کا شور سن کر باہر نکل آئیں۔ بھائی کو اچانک دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھیں۔ سب کا خیال تھا کہ وہ شادی کے لیے آیا ہے۔ وہ جلدی جلدی بھائی کی خاطر داری میں لگ گئیں۔ ماں سے ان کی خوشی برداشت نہ ہوئی اور وہ بول اٹھی۔
’’جا رہا ہے یہ تتڑیو…!جانے کے لیے آیا ہے‘‘ پھر شاید لکڑیوں کا دھواں اس کی آنکھوں میں گھس گیا اور آنسو بہنے لگے۔
’’کہاں؟ کیوں؟‘‘ لڑکیاں اسکول میں پڑھتی تھیں، اس لیے باپ نے انھیں بتانے میں حرج نہ سمجھا۔ چھوٹی بہن دوڑ کر اپنے بستے سے معاشرتی علوم کی کتاب نکال لائی۔ اس میں دنیا کا نقشہ تھا۔ وہ اس ملک کو ڈھونڈنے لگی جہاں اس کا بھائی جارہا تھا…ہوائی جہازپر…
’’ہمارے لیے کیا لائو گے؟‘‘
’’لکھ کر دے دو جو منگوانا ہے۔‘‘
ماں کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ وہ آنسو چھپارہی تھی… لڑکیوں نے دیکھ لیا، تو وہ بھی رونے لگیں گی اور پھر بیٹے کا دل دکھے گا۔ جہاں جارہا ہے خوشی خوشی جائے۔ خیری خیری آئے…
ناشتے کے بعد بگا محلے والوں سے ملنے نکل گیا۔ ہر طرف خبر پھیل گئی کہ بگا یونٹ کے ساتھ باہر جارہا ہے ہوائی جہاز پر۔
جونہی دن کا کھانا کھایا بگے کو نکلنے کی جلدی ہوگئی۔ اس نے منہ ہاتھ دھویا، کنگھی کی اور میلی ٹاکی سے بوٹ چمکا کر جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اب بہنوں کو احساس ہوا کہ بھائی جارہا ہے…اور ان کے دل بھاری ہوگئے اور آنکھیں چھلکنے لگیں۔ چھوٹی بہن ثومی جلدی سے اندر گئی اور اپنے بستے سے جیومیٹری بکس نکال کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ پھر ایک چینی کا لال رنگ کا چھلا نکال لائی۔
’’بھائی میری نشانی۔‘‘ اسے دیکھ کر بڑی کچھ سوچنے لگی اور پھر اس نے اپنا سلائی کڑھائی کا تھیلا دیوار کی کیل سے اتارا اور ایک کڑھائی کیا ہوا رومال نکالا۔ وہ کہنا چاہتی تھی’’میری نشانی‘‘ لیکن اس کا گلا رندھ گیا۔
ماں نے سردیوں میں اسے دینے کے لیے سبز کنی والی گرم چادر لے کر رکھی تھی۔ صندوق میں سے نکالی۔ فنائل کی کئی گولیاں زمین پر لڑھک گئیں۔ کپکپاتی آواز میں بولی۔
’’رکھ لے ساتھ۔ خدا جانے وہاں کون کون سے موسم آجائیں۔‘‘
بگا باری باری سب سے گلے ملنے لگا۔ دروازے سے نکلنے لگا، تو ماسٹر صاحب بولے ’’ٹھہرنا محمد اکبر۔‘ـــ‘ وہ اندر کمرے میں چلے گئے اور اپنی واسکٹ کی جیب سے کچھ نکال کر لائے اور سب حیران رہ گئے۔ یہ وہ تاریخی فائو ٹین پین تھا جس کے ساتھ ماسٹر صاحب نے خود میٹرک کیا۔ خدا جانے کون سا امتحان دیا تھا اور اسے چھیڑنے پر تقریباً سب کو مار پڑ چکی تھی۔ کسی کو اسے استعمال کرنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔
’’اس کے ساتھ خط لکھتے رہنا‘‘ انھوں نے مضبوط آواز میں کہا اور بہنیں اور ماں ضبط نہ کرسکیں۔ اپنی آوازیں اور آنسو اوڑھنیوں میں چھپانے لگیں۔ ماسٹر صاحب کا سختی سے حکم تھا کہ گھر کی آواز باہر نہیں جانی چاہیے۔
٭…٭
جب ایک روز کچھ فوجی جوان اور افسر ماسٹر جی کے گھر لکڑی کا بہت بڑا بکس، بہت سے اچھے اچھے لفظ اور بہت سارے روپوں کا چیک چھوڑ گئے، تو پہلی دفعہ محلے والوں نے ماسٹر جی کے گھر کی آوازیں باہر سنیں۔
ماسٹر جی نیم غشی کے عالم میں تابوت پر گر پڑے۔ محلے والوں کے سنبھالنے پر کچھ ہوش میں آئے۔ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر بے قابو ہوگئے۔ اس کی پیشانی سے گھنگھریالے بال ہٹا ہٹا کر بے تحاشا چومنے لگے… ’’میرا سوہنا …میرا کنڈلاں والا۔‘‘
ماں یہ آوازیں سن کر اور تڑپ گئی اور بین کرتے ہوئے پڑسنوں سے بولی۔
’’جب تک زندہ رہا باپ کی جھڑکیاں ہی کھاتا رہا‘‘
کسی نے ماسٹر صاحب کو تابوت پر سے اٹھایا۔
’’صبر صبر! صبرکرو… شہیدوں پر رویا نہیں کرتے…‘‘ شہید!…اس ایک لفظ نے سحر سا پھونک دیا۔ دکھتے ہوئے دل پر جیسے مرہم کا پھاہا رکھ دیا۔ بیٹے کے عظیم مرتبے کے احساس نے ان کے اندر نئی روح پھونک دی۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور باقی لوگوں کے ساتھ مل کر انتظامات میں لگ گئے۔
قبر پر مٹی ڈالنے اور دفنانے کے بعد وہ گور کن سے بات کررہے تھے۔ خدا جانے کس کی آواز ان کے کان میں پڑگئی۔ کوئی کسی سے کہہ رہا تھا…’’دین اور وطن کے لیے مرنے والے تو شہید ہوتے ہیں۔ خبرے ایسی موتیں کس کھاتے میں جائیں گی؟‘‘
ماسٹر جی کے دل میں کسی نے بھالا گھونپ دیا۔ وہ تڑپے اور بیٹے کی قبر پر گر پڑے اور پھر بچوں کی طرح بلکنے لگے۔ لوگوں نے ’’صبر صبر‘‘ کہتے ہوئے انھیں اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن چار آدمی بھی انھیں اٹھا نہ سکے۔ وہ بہت دیر تک یونہی پڑے سسکتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے رومال سے چہرہ اور آنکھیں صاف کیں اور قبر کی پائنتی بیٹھ کر یوں بے بسی سے اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگے جیسے بگے نے انھیں ایک بار پھر مایوس کردیا تھا۔

کھوٹا سکّہ