پیکر دجل و مکر اور کذب و افتراءمرزاقادیانی کی موت کے بعد اس کی ذریت اس زعم میں مبتلا ہوگئی کہ آئندہ ہندوستان انہی کی خلافت کے زیر سایہ ہوگا۔ چنانچہ مرزا محمود نے بزرو بازو قادیان میںاپنی خلافت قائم کی جس کا پایہ تخت بعد میںپاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوگیا۔ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قابض ہونے کے بعد انہیںیقین تھاکہ جلد وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے اور یہاں مسیلمہ پنجاب کی شیطانی شریعت کا راج ہوگا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے ریاست کے اندر ایک ریاست ربوہ کے نام سے قائم کی۔ اس ریاست میں امور خارجہ‘ داخلہ‘ دفاع‘ خزانہ‘ تجارت‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کی ایسی ہی وزارتیںقائم کیں جیسے ایک ملک کے نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ان لوگوں نے کسی بھی عوامی یا حکومتی رد عمل سے بچنے کے لئے وزارت کی بجائے نظارت کی اصطلاح اختیار کی۔ نظارت امور خارجہ کا کام اپنی ریاست ربوہ سے اندرون و بیرون ملک خلیفہ کی زیر نگرانی تبلیغی‘ سیاسی اور جوڑ توڑ کی کارروائیاں کرنا ہے۔ نظارت داخلہ کا کام فوجداری مقدمات‘ سزاﺅں پر عمل درآمد ‘ پولیس اور حکومت سے روابط رکھنا ہے۔ ناظر حفاظت مرکز کا کام ربوہ کو بیرونی حملوں سے محفوظ کرنا اور اس مقصد کے لئے فوج میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ہے۔ اسی طرح ایک اہم نظارت تعلیم ہے جس میں ناظر یا وزیر تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قادیانی طلبہ کے تمام تعلیمی امور کی نگرانی کرے۔ انہیں ملک کے اہم اور مہنگے تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے ذرائع استعمال کرکے داخلہ دلوائے تاکہ انہیں منظم کرکے ان کے ذریعے قادیانی مذہب کا پرچار کیاجائے۔ ایسے واقعات کئی ایک اداروں میں ہوئے جہاں قادیانی طلباءنے مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر طلباءکو مرتد کرنے کی کوششیں کیں۔ ملت اسلامیہ سے جھٹک دیئے جانے کے باوجود قادیانیت ایک ایسا ناسور ہے جو اپنے باطل عقائد‘ شیطانی اوہام اور اضغاث احلام پر ایسے ہی اسلام کا لیبل چپکائے رکھنے پر اصرار کرتاہے جیسے کوئی شعبدہ با ز پیتل پر سونے کا پانی چڑھا کر لوگوں کو دھوکا دیتا ہے۔ عالمی صہیونی تحریک کا آلہ کار اپنے مغربی آقاﺅں کے مفادات کی خاطر امت مسلمہ کی جڑیںکھوکھلی کرنے کے لئے مسلمانوں سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتا۔ قادیانیت کی تعلیمی اداروںمیں سرگرمیوں کی تازہ واردات پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں ہوئی جہاں انہوں نے خفیہ تبلیغ کے ذریعے تین لڑکیوں کو مرتد بنالیا۔ ملک کے اس اہم ادارے میں قادیانی طلباءکی دعوتی سرگرمیاں نو دس سالوں سے جاری تھیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں ناظر تعلیم ربوہ سے باقاعدہ رہنمائی ملتی رہی۔ ان طلباءمیں سال اول سے لے کر فائنل ایئر تک تقریبا ً23 طلباءو طالبات شامل ہیں۔ طالبا ت کی تعداد 15 جبکہ طلباءکی تعداد 8 ہے۔ یہ وہ طالب علم ہیں جن کی قادیانیت چھلک کر واضح ہوگئی ہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیوں کا اصل مرکز گرلز ہاسٹل تھے۔ نئی آنے والی لڑکیاں قادیانیت کے پرچار میں زیادہ سرگرم تھیں۔ انہوں نے کئی ایک لڑکیوں کو مسیلمہ قادیان اور دیگر قادیانی فتنہ پروروں کی شیطانی تحریوں پر مشتمل لٹریچر دینا شروع کیا۔ اور ساتھ انہیں سبز باغ بھی دکھائے جاتے۔ اکثر قادیانی مبلغات طالبات سے والدہ یاکسی مذہبی رشتے کی آڑ میں ملنے کے بہانے آکر مذموم سرگرمیاں انجام دیتیں۔ مئی 2008 ءکے آغاز میں ایک قادیانی طالبہ کی والدہ کے روپ میںایک مبلغہ ہاسٹل میں آئی یہاں اس کا قیام اس وقت تک رہا جب تک وہ تین مسلم طالبات کو رام کرکے ارتداد کی گھٹا ٹوپ گمراہیوں میں اتارنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ ہاسٹل کی رفاقت‘ سلام دعا اور دوستی سے شروع ہونے والایہ سفر اس وقت تکمیل پذیر ہوا جب ڈاکو¶ں نے سبز باغ اور گمراہ کن تبلیغ کے ذریعے ان کے ایمان کو لوٹ لیا۔ اس نام نہاد والدہ کے جانے کے چند روز بعد دو طالبات نے ایک دن ہاسٹل میںیہ دھماکہ خیز اعلان کیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر قادیانیت اختیار کر چکی ہیں۔ ان کی اس دیدہ دلیری پر مسلمان طلباءو طالبات میں بھونچال آگیا۔ تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔قادیانیوں کی غنڈہ گردی کی تاریخ تو ان کی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتی ہے تاہم بطور نمونہ مشتے از خروارے کچھ واقعات آپ کے ملاحظہ کے لئے ہم بیان کریں گے۔1974ءمیں نشتر میڈیکل کالج کے طلباءسیر و سیاحت کی غرض سے بذریعہ ریل ملتان سے پشاور جا رہے تھے جب ان کی گاڑی ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قادیانی مشنری گماشتوں نے ان کے ڈبے میں داخل ہوکر ارتدادی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ مسلمان طلباءنے اسلام زندہ باد‘ خاتم الانبیاءمحمد مصطفی زندہ باد‘ قادیانیت اور اس کے گرو کے خلاف نعرے لگائے۔ ربوہ جو قادیانی ریاست کا گڑھ ہے جہاں ان کی منشاءکے خلاف چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ‘ آج یہاں قادیانیت کے خلاف نعرے بازی‘ کبھی انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ مسلمان طلباءکی جرا¿ت اور غیرت ایمانی نے شیطان کے چیلوں کو سیخ پا کردیا۔ انہوں نے ان طلباءکو سبق سکھانے کا عزم مصمم کرلیا جب یہ طلباء واپسی پر ربوہ پہنچے تو قادیانی غنڈوں کا ایک ہجوم ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے لیس ہوکر ان پر ٹوٹ پڑا۔ ان طلباءکو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اکثر کی حالت نازک ہوگئی۔ نشتر میڈیکل کالج کے ان طلباءکی اس قربانی کانتیجہ تھاکہ قادیانیوں کو استعماری قوتوں کے دباﺅ کے باوجود حکومت وقت کو غیر مسلم قرار دینا پڑا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دلوانے کا کا م جو علماءکی برسوں کی تحاریر و تقاریر سے نہ ہو سکا‘ وہ نشتر میڈیکل ملتان کے طلباءکی مظلومیت اور کلمہ حق سے منزل مراد پاگیا۔ کہاں وہ نشتر میڈیکل کالج کے طلباءجو قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا سبب بنے اور کہاں آج پنجاب میڈیکل کالج جہاں قادیانیت نے سرنگ لگا کر طلباءو طالبات کو مرتد بنانا شروع کردیاہے۔ آج PMC کے طلباءکا امتحان ہے‘ دیکھیں وہ مرزا کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ PMCکے سینئر طلباءکو جب قادیانی طلباءکی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو انہوں نے دوسرے روز کلاسز میں قادیانیت کے جھوٹے عقائد کے حوالے سے لٹریچر تقسم کیا۔ راقم نے جب PMC میں ناظم اسلامی جمعیت طلباءحسان چوہدری اور طلباءجماعة الدعوة کے ذمہ دار خاور بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے تمام صورت حال بتاتے ہوئے کہا: ہم نے دوسرے روز ایک وال چارٹ آگاہی کے لئے کیمپس میں آویزاں کیا مگر اس چارٹ کو چھٹی سے قبل ہی اس طرح پھاڑ دیا گیا کہ پوری عبارت میں سے صرف اسم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پھاڑا گیا ۔ طلبہ کا مشتعل ہونا ایک لازمی امر تھا مگر چونکہ مجرم تلاش کے باوجود نہ مل سکا لہذا طلبہ نے اپنے ابلتے ہوئے جذبات پر قابو پاکر صبر کیا۔ اسی رات تمام دینی و سیاسی تنظیموں کو ایک ہنگامی اجلاس میں اکٹھا کرکے ایک طلبہ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے زیر اہتمام کالج میں مزید وال چارٹس لگائے گئے‘ جن پر طلبہ سے ان قادیانیوں کا بائیکاٹ اور انتظامیہ سے ان کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ صبح طلبہ کا ایک وفد پرنسپل سے ملاقات کے لئے گیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ قادیانی طالبات کا ہاسٹلز میں داخلہ بند کیا جائے اور ان کی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے مگر پرنسپل رضامند نہ ہوا۔ اس کے خیال میں تمام قادیانی طالبات کو ایک الگ ونگ(Wing)میں منتقل کر دینا ہی دانشمندی تھی۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک رات کمیٹی کے لگائے گئے وا ل چارٹس میں سے ایک کو پھاڑ دیا گیا ۔ رات ہی کو اس امر کی نشاندہی ہونے کے بعد طلبہ نے قادیانی لڑکوں کو گھیر لیا اور ان سے پوچھ گچھ شروع کی تو پھٹے ہوئے وال چارٹس کے ٹکڑے ایک قادیانی طالبعلم ذیشان کی جیب سے برآمد ہوئے ۔ دونوں بوائز ہاسٹلز کے طلبہ باہر آگئے۔ اور تمام قادیانی طالبعلموں کو ایک جگہ جمع کرلیا گیا ۔ پہلے پہل تو کسی نے اقرار نہ کیا مگر بعد میں اسی طالبعلم نے پوسٹر کے پھاڑنے کے امر کا اعتراف کر لیا۔جب قادیانیوں کی گھناﺅنی حرکات کے ثبوت مل گئے تو طلباءکے مشتعل ہجوم سے کسی بھی واقعہ کا سرزد ہونا بعید نہ تھا چنانچہ طلباءایکشن کمیٹی نے حالات پر قابو پاکر اعلان کیا کہ کل صبح پرنسپل آفس کے سامنے جاکر ان سب طلبہ کے کالج سے خارج ہونے تک دھرنا دیا جائے گا۔ چنانچہ صبح 8 بجے پرنسپل کے دفتر کا تمام طلبہ و طالبات نے گھیراﺅ کر لیا۔ پرنسپل نے اکیڈمک کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ۔ شہر کے DIG، DCO کو بھی مشورے کے لئے بلا لیا گیا۔ انتظامیہ نے بہتیرے حیلے بہانے کرنے کی کوشش کی مگر طلبہ و طالبات ان قادیانیوں کے کالج سے خروج (expelsion) سے کم پر راضی نہ ہوئے ۔ چنانچہ اکیڈمک کونسل نے اسی دوران ڈسپلنری کمیٹی کا اجلاس بلا یا جس میں پھٹا ہوا پوسٹر بطور ثبوت پیش ہوا اور چند قادیانی طلبہ و طالبات کے داخلہ فارمز بھی پیش کئے گئے جس میں انہوں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا تھا۔ ڈسپلنری کمیٹی نے3گھنٹے غورو خوض کے بعد ان طلبہ کے اخراج کا فیصلہ سنایا جس کا نوٹیفیکیشن پرنسپل نے جاری کر دیا۔ اس سارے عمل کے دوران جون کی شدید گرمی میں ساڑھے چار گھنٹے تک طلبہ پر امن طریقے سے ایڈمن بلاک کے باہر اور اندر دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ نوٹیفیکشن جاری کرنے کے فوراً بعد پرنسپل نے اسی روز گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا جو در اصل معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے طلبہ کو گھروں میں بھیجنے کی سازش تھی۔ اس معاملے (23قادیانی طلبہ کے اخراج ) کو عالمی نیوز ایجنسیوں ، خصوصاً بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے بہت بھونڈے انداز میں پیش کیا اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس کی بنیا د پر یہ تاثر پھیلاکہ شاید ان طالبعلموں سے زیادتی کی گئی ہے۔ پرنسپل پر دبا ﺅ پڑا تو اس نے ہاسٹل میں مقیم باقی ماندہ طلبہ کو نکالنے کے لئے ہاسٹلز کی بجلی اور پانی بند کر دیئے اور ان کو ہاسٹلز خالی کرنے کا کہا گیا لیکن جب طلبہ سازش کی بو پاکر ہاسٹل سے نہ گئے تو پولیس گردی کی گئی اور ہاسٹلز کو زبردستی خالی کرا لیا گیا۔ انتظامیہ نے معاملے کی از سر نو تحقیق کے لئے ایک نئی انکوائیری کمیٹی تشکیل دی جس نے طلبہ کو اپنے روبرو پیش ہونے کو کہا ۔ طلبہ نے اعلان کیا کہ وہ کسی کمیٹی میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک کالج کھل