تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے

جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
وہ شخص مجھ کو بہت بد نصیب لگتا ہے

حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نا کوءی غیر نہ کوءی رقیب لگتا ہے

یہ دوستی یہ مراسم یہ چاہتیں یہ خلوص
کبھی کبھی یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے

افق پہ دور چمکتا ہوا کوءی تارا
مجھے چراغِ دیار حبیب لگتا ہے

نہ جانے کب کوءی طوفان آءے گا یاروں
بلند موج سے ساحل قریب لگتا ہے

جاں نثار اختر