محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے
عشق مجازی ہو یا حقیقی ۔ ہر حال میں یہ نا ممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے ۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔
کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے

غرض ہر عشق کے مدارج مختلف ہیں۔ کوئی عشق مجازی میں ہی گھر کر رہ جاتا ہے۔
تو کوئی عشق ِ مجازی سے حقیقی تک رسائی حاصل کرکے حقیقی اعزازو شرف حاصل کرتا ہے۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ عقل اور عشق کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں۔۔
عقل میں پختگی تب آتی ہے جب انسان مصلحت سے کام لیتا ہے، ہر نفع و نقصان کو مدِ نظر رکھتا ہے۔۔

عقل میں بہت سی صفات موجود ہیں البتہ اس میں وہ جوش و خروش ، تڑپ ، حرکت اور وہ جرات نہیں جو عشق کا شیوہ ہے۔

اگر عشق میں بھی مصلحت سے کام لیا جائے تو عشق ابھی ناکارہ ہے، بے کار ہے۔۔
عقل راز کو سمجھ کر اس کا ادراک کرتی ہے۔ جبکہ عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
عقل کی عیاری اور عشق کی سادگی اور اخلاص کو اس طرح ظاہر کیا ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم


آخر میں اقبال کی عقل اور عشق پر وضاحت سے معاملہ حل ہوا:۔
ہے۔ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ ہے عشق ۔
عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے
عشق معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

Name:  12187827_900761903338533_1817642109560063968_n.jpg
Views: 152
Size:  16.4 KB