حسبِ توفیق

وہ تھک چُکا تھا تو گھر گیا ہو گا
دِل تو حسب ِ توفیق مر گیا ہوگا

یار پر وار کر اِسے کیا ہے بُلند
کہا کِس نے کہ بیکار سر گیا ہوگا

مُسافر کو بے سر و ساماں لمبے سفر پر
نہیں جانا تو نہیں تھا مگر گیا ہوگا

جس کو لا علاج کہ چُکے تھے طبیب
کل رات وہ جاں سے گُزر گیا ہوگا

نازوں سے جِسے سونپی تھی امانتِ دِل
یہ نہ سوچا تھا یوں مُکر گیا ہوگا

ہم نے مانا کہ مُنصف کو بڑی جلدی تھی
ہے یہ اُمید کہ اِنصاف کر گیا ہو گا

پتھروں کی محفل میں وہ آئینہ نُما
تُجھکو پا کر عثماں بِکھر گیا ہوگا

عثمان انیس