سکندر 350 سے 10 جون 323 قبل مسیح تک مقدونیہ کا حکمران رہا۔ اس نے ارسطو جیسے استاد کی صحبت پائی۔ کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصر اور فارس تک فتح کرلیا۔ کئی اور سلطنتیں بھی اس نے فتح کیں جس کے بعد اس کی حکمرانی یونان سے لیکر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل گئ۔
صرف بائیس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کے لیے نکلا۔


یہ اس کے باپ کا خواب تھا اور وہ اس کے لیے تیار ی بھی مکمل کر چکا تھا لیکن اس کے دشمنوں نے اسے قتل کرا دیا۔ اب یہ ذمہ داری سکندر پر عاید ہوتی تھی کہ وہ اپنے باپ کے مشن کو کس طرح پورا کرتا ہے۔
باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کے بغیر ہی اسے مقدونیہ کی حکمرانی مل گئی تھی۔ ورنہ اس زمانے کا قاعدہ تو یہی تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوتے ہی تخت کے حصول کے لیے لڑائیاں شروع ہو جاتیں اور اس لڑائی میں ہر وہ شخص حصہ لیتا جس کے پاس تخت تک پہنچنے کا ذرا سا بھی موقع ہوتا۔ سکندر ایک تو اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، دوسرا اس وقت مقدونیہ کی حکمرانی کا کوئی اور خاص دعوے دار نہیں تھا۔ لیکن احتیاط کے طور پر سکندر نے ایسے تمام افراد کو قتل کرا دیا جو کسی بھی طرح اسے نقصان پہنچا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کے اکسانے پر اس نے اپنی دودھ پیتی سوتیلی بہن کو بھی قتل کر دیا۔
سکندر کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا تھا جو اپنے زمانے کا قابل اور ذہین ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے باپ "فلپس" نے اپنے بیٹے کی جسمانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس کے لیے اسے شاہی محل سے دور ایک پر فضا مقام پر بھیج دیا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی سے وہ سست نہ ہو جائے۔ یہاں سکندر نے جسمانی مشقیں بھی سیکھیں اور گھڑ سواری، نیزہ اور تلوار بازی میں مہارت بھی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ارسطو اس کی ذہنی تربیت بھی کرتا رہا۔
حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں سکندر نے "ایتھنز" (یونان کا دارالخلافہ) سمیت دیگر پڑوسی ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی مہم پر نکلنے سے پہلے وہ نہ صرف اپنی فوج کو مضبوط کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کو یہ فکر بھی تھی کہ کہیں اس کی غیر موجودگی میں کوئی مقدونیہ پر حملہ نہ کر دے۔
دو سال اس کام میں بیت گئے۔ اس دوران کچھ علاقوں کو تو اس نے تلوار کے زور پر فتح کر لیا اور کچھ مقابلہ کیے بغیر ہی اس کے ساتھ مل گئے۔



شمال اور مغرب کی طرف سے کسی حد تک مطمئن ہوجانے کے بعد سکندر نے مشرق کی جانب نظر ڈالی تو اسے ایران کی وسیع و عریض سلطنت دکھائی دی۔ بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی اس سلطنت کا رقبہ لاکھوں میل تھا۔ اس میں دریا بھی تھے، پہاڑ بھی۔ صحرا بھی تھے اور جھیلیں بھی۔ غرض یہاں وہ سب کچھ موجود تھا جو کسی بھی علاقے کو خوش حال بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایرانی سلطنت پوری نہیں تو آدھی دنیا کی حیثیت ضرور رکھتی تھی۔ یہاں تقریباً ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آباد تھے۔
ایرانی سلطنت پر حملے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایرانی شہنشاہ دارا نے سکندر کے مخالفین کی خفیہ طریقے سے مدد بھی شروع کر دی۔ دراصل ایرانی فوج میں ایک بڑی تعداد ایسے یونانیوں کی تھی جو شروع ہی سے اپنے پڑوسی ملک مقدونیہ کے خلاف رہے تھے۔ انہی کے اکسانے پر دارا نے یہ قدم اٹھایا تھا۔
334 قبل مسیح میں سکندر 35 ہزار فوج کے ساتھ مقدونیہ سے نکلا۔ اس فوج میں تیس ہزار سوار اور پانچ ہزار پیدل تھے۔ سکندر کی پیدل فوج کی مشہور ترین چیزمقدونوی "جتھا" تھا۔ یہ 256 فوجیوں کا مربع شکل کا دستہ تھا۔ یعنی ہر قطار میں سولہ سپاہی تھے اور ان قطاروں کی تعداد بھی سولہ ہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں جو نیزے ہوتے وہ بھی 16،16 فٹ لمبے ہوتے۔ یوں چلتے ہوئے جب پہلی پانچ قطاروں کے سپاہی اپنے نیزے آگے کی طرف بڑھاتے تو ان کی نوکیں پہلی قطار سے بھی آگے نکل جاتیں۔
مشرق کی طرف چلتے ہوئے دریائے "گرانی کوس" پر سکندر کا سامنا ایک قدرے چھوٹے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر میں بیس ہزار سوار اور بیس ہزار ہی پیدل سپاہی تھے۔ پیادوں میں زیادہ تر یونانی نسل کے لوگ تھے۔ لشکر کی کمان دارا کے قریبی لوگوں کے پاس تھی۔ ان میں اس کا داماد "سپتھراواتیس" بھی شامل تھا۔
سکندر کی فوج کا پتا چلتے ہی ایرانیوں نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ دریا کے ڈھلوان کنارے پر قبضہ کر نا تھا تاکہ دشمن فوج کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ لیکن اس بات پر سکندر ذرا نہ گھبرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی فوج کا ایک ایک سپاہی دل و جان سے اس کے ساتھ ہے۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے تیروں کی پروا کیے بغیر دریا پار کر لیں۔ بس ایک مرتبہ دوسرے کنارے پہنچ گئے، پھر ان کا دشمن پر قابو پانا مشکل نہیں ہو گا۔ سکندر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایشیائی لوگ جہاں گھڑ سواری میں ماہر ہیں وہاں پیدل لڑائی میں خاصے کمزور ہیں۔ مزید یہ کہ اس کے سپاہیوں کے پاس ایرانیوں کے مقابلے میں بہتر اسلحہ ہے۔۔۔۔۔ وہ سر سے پاؤں تک زرہ میں ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے نیزے ہلکے اور لمبے تھے۔
سکندر کی فوج کا "جتھا" درمیان میں تھا جب کہ دائیں اور بائیں طرف سوار تھے۔ دائیں طرف کے سواروں کی قیادت وہ خود کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا لیکن دریا کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں اس کی فوج دریا پار کر کے دشمن کے عین مقابل کھڑی تھی۔
گھمسان کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے شروع میں تو ایرانیوں کا پلا بھاری رہا لیکن بازی جلد ہی پلٹ گئی۔ مقدونوی فوج نے جب خود اپنے سپہ سالار کو دشمن کی صفوں میں گھستے دیکھا تو ان کی ہمت بندھ گئی اور انہوں نے ایرانیوں پر کاری ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ سکندر چمک دار زرہ پہنے اور سر پر مقدونوی کلغی سجائے ایک شان سے آگے بڑھا اور سیدھا اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ایرانی سپہ سالار جمع تھے۔ وہ اس قدر بہادری سے لڑا کہ آن کی آن میں ایرانی سپہ سالاروں کی لاشیں گرنے لگیں۔ سکندر کے بازوؤں کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لڑتے لڑتے اس کے نیزے کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ تب اس نے اپنے سائیس (گھوڑے کی نگرانی کے لیے رکھا گیا ملازم) کا نیزہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور لڑتے لڑتے اسے بھی توڑ ڈالا۔ تب اس کے ایک سپہ سالار "دیماراتوس" نے اپنا نیزہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور اس نیزے کے ایک ہی وار سے اس نے دارا کے داماد "سپتھراواتیس" کا کام تمام کر دیا۔
جنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی۔ اسی طرح اچانک ختم بھی ہوگئی۔ کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان کے ایک ہزار گھڑ سوار مارے گئے، باقیوں نے بھی بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی۔ ایرانی سپہ سالار کی بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ ان ہزاروں پیدل سپاہیوں کا استعمال کرنا بالکل بھول ہی گئے جو یونانی نسل کے تھے اور ایرانی فوج میں اجرت پر بھرتی ہوئے تھے۔ یہ جنگ کے پورے عرصے کے دوران میں ایک جانب خاموشی سے کھڑے رہے اور آخر میں مقدونویوں نے ان میں سے دو ہزار کو تو گرفتار کر لیا، باقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دوسری طرف مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ ان کے ساٹھ سوار اور 30 پیادے مارے گئے۔ البتہ ان مرنے والوں میں ایسے بھی تھے جو سکندر کے خاص آدمی کہے جا سکتے ہیں۔
گرانی کوس کی فتح کے بعد سکندر کا سامنا "اسوس" (شام کا شہر) کے مقام پر ایک بہت بڑے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر کی قیادت خود دارا کر رہا تھا اور اس میں تقریباً ایک لا کھ سپاہی تھے۔ لیکن یہاں بھی ہمت ہارنے کے بجائے سکندر نے اعلی جنگی حکمت عملی اپنائی اور جلد ہی دشمن کے پیر اکھاڑ دیے۔ ایک دفعہ پھر کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دارا نے تو بھاگتے ہوئے یہ بھی پروا نہ کی کہ اس کے خیمے میں اس کی ماں اور بیوی بچے موجود ہیں۔
اس جنگ میں بھی ایرانیوں کا بھاری نقصان ہوا جبکہ مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ سکندر نے دشمن کی ایک بہت بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔ لیکن دارا کے بیوی بچوں کے ساتھ اس نے نہایت عمدہ سلوک کیا۔
اب سکندر کا اگلا ہدف مصر تھا لیکن اس کے راستے میں چند ایک ایسے علاقے تھے جو اس سے مقابلہ کرنے پر تیار تھے۔ ان میں پہلا "صور" شہر تھا۔ صور والوں کو جب پتا چلا کہ سکندر ان کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اپنے قلعے میں محصور ہو گئے۔ صور ایک جزیرہ تھا یعنی اس کے چاروں اطراف میں پانی تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے سکندر نے فوراً ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد قلعے پر ہلہ بول دیا گیا۔ چند ہی دنوں میں یہ اہم شہر بھی فتح ہو گیا تھا۔


صور کے محاصرے کے دوران میں سکندر کو دارا کا پیغام ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اس کے بیوی بچوں کو چھوڑ دے۔ اس کے بدلے اسے آدھی ایرانی سلطنت دے دی جائے گی۔ یہ پیغام سن کر سکندر کا خاص آدمی "پارمے نیو" کہنے لگا کہ اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیش کش قبول کر لیتا۔ اس پر سکندر بہت خفا ہوا۔ وہ کہنے لگا:
"اگر سکندر، "پارمے نیو" ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا۔"
اس نے دارا کی یہ پیش کش مسترد کر دی اور پیغام بھجوایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور پیش کش ہے تو دارا خود آ کر بات کرے۔
صور کے بعد "غزہ" شہر کی باری آئی۔ اس کی فتح کے بعد سکندر مصر میں داخل ہوا اور توقع کے بر خلاف یہاں کے حکمران نے بغیر کسی فوجی کارروائی کے سکندر کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ دریائے نیل کے راستے سمندر کی طرف بڑھا اور ایک مناسب جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ اس قدیم شہر کا نام اسکندریہ ہے اور یہ آج بھی مصر کے اہم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
331 ق م میں سکندر نے پھر مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔ اس نے سب سے پہلے عراق کا مشہور دریا فرات عبور کیا اور قدیم شہر نینوا کے قریب "گوگا میلا" کے مقام پر اس کا سامنا شہنشاہ ایران کی عظیم الشان فوج سے ہوا (نینوا وہی شہر ہے جہاں حضرت یونس پیدا ہوئے تھے)۔