چاند دو ٹکڑے ہوگیا:۔
حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں “شق القمر” کا معجزہ بہت ہی عظیم الشان اور فیصلہ کن معجزہ ہے۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ کفار مکہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے کوئی معجزہ اور نشانی دکھایئے۔ اس وقت آپ نے ان لوگوں کو “شق القمر” کا معجزہ دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر نظر آیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن عباس و حضرت انس بن مالک و حضرت جبیر بن مطعم و حضرت علی بن ابی طالب و حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت حذیفہ بن یمان وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔(زرقانی علی المواهب جلد۵ ص ۱۲۴)
ان روایات میں سب سے زیادہ صحیح اورمستند حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مذکور ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے نیچے نظر آ رہا تھا۔ آپ نے کفار کو یہ منظر دکھا کر ان سے ارشاد فرمایا کہ گواہ ہو جاؤ گواہ ہو جاؤ ۔(بخاری جلد ۲ ص ۷۲۱،ص ۷۲۲ باب قوله وانشق القمر)
ان احادیث مبارکہ کے علاوہ اس عظیم الشان معجزہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (قمر)
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور یہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔
اس آیت کا صاف و صریح مطلب یہی ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا جو علامات قیامت میں سے تھا وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا مگر یہ واضح ترین اور فیصلہ کن معجزہ دیکھ کر بھی کفار مکہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ظالموں نے یہ کہا کہ محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے ہم لوگوں پر جادو کر دیا اور اس قسم کی جادو کی چیزیں تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں۔