لبوں کا بے وجہ کھلنا اشارە ہے محبت کا
ذرا سوچو تو خوشبو استعارە ہے محبت کا
ہزاروں لاکھوں انجم ہیں مگر جب غور فرماؤ
ستاروں میں درخشاں اک ستارہ ہے محبت کا
بہت پامال ہو کر بھی دمکتا ہے یہ موتی سا
دل خوش فہم پر اب بھی اجارہ ہے محبت کا
سنبھل جاۓ تو کیا اچھا۔ پڑی ہے ناگہاں آفت
ہوا حملہ موۓ دل پر دوبارہ ہے محبت کا
ذرا تھم کر رھو دل تھام کر رکھو شہاب اپنا
غزل ہے یا کوئی تازە شمارہ ہے محبت کا