یزید کا پوسٹ مارٹم
نہایت علمی حوالہ جات ملاحظہ کیجیے......
کیا یزید بے قصور اور جنتی ہے؟
موجودہ دور نفسا نفسی اور فتنوں کا دور ہے۔ روز بروز ایک نیا فتنہ اسلام کا نام لے کر کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے۔ موجودہ دور میں ماڈرن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ماڈرن لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ وہ ماڈرن مذہبی اسکالرز کی بات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا پر خشخشی داڑھی والے غامدی‘ کوٹ پینٹ ٹائی والے ذاکر نائیک اور ہاتھوں میں بینڈ باجے لئے بابر چوہدری اور نجم شیراز جیسے لوگ جو نہ سند یافتہ عالم ہیں اور نہ ہی شکل اور حلیے سے مذہبی معلوم ہوتے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ میڈیا پر ایک نیا شوشہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فسادی اور فرقہ پرست نہیں کہتا۔

آج کل انہی جیسے لوگوں نے یہ بات مشہور کردی ہے کہ یزید بے قصور آدمی تھا۔ یزید کے لئے تو جنت کی بشارت دی گئی ہے وہ قتل حسین پر راضی نہ تھا۔ ان کے اس میٹھے زہر کا مقابلہ ہم آج اس مضمون میں کریں گے اور احادیث‘ جید تابعین اور علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے جس یزید کو ناصبی اپنی آنکھ کا تارا تصور کرتے ہیں وہ دین اسلام کی اصل شکل کو مسخ کرنے کے ارادے سے حکمرانی کررہا تھا۔

یزید کا مختصر تعارف

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یزید بیٹا معاویہ بن ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے ‘کنیت اس کی ابو خالد ہے۔ یزید حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوا (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی جلد 11 ص 360)

یزید احادیث کی روشنی میں

حدیث شریف: حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا (مسند ابو یعلیٰ حدیث نمبر 872ص 199‘ مجمع الزوائد جلد 5ص 241‘ تاریخ الخلفاء ص 159‘ الصواعق المحرقہ ص 221)

حدیث شریف: محدث امام رئویانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺکو فرماتے سنا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ پہلا وہ شخص جو میرے طریقے کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔

(جامع الصغیر جلد اول ص 115‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ماثبت من السنہ ص 12)

حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ‘ سن ساٹھ کے آغاز سے تم لوگ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اس وقت دنیا (حکومت) احمق اور بدعادت کے لئے ہوگی۔ (بحوالہ: خصائص کبریٰ جلد دوم ص 139)

فائدہ: علامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چھوکروں اور احمقوں کی حکومت سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے (تفسیر مظہری جلد اول ص 139)

یزید جید تابعین کی نظر میں

1۔ حضرت عبداﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا (تاریخ الخلفاء ص 207‘ الصواعق المحرقہ ص 134‘ طبقات ابن سعد جلد 5ص 66)

2۔ حضرت منذر بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سنائوں۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہوجاتا ہے کہ وہ نماز ترک کردیتا ہے (ابن اثیر جلد چہارم ص 42‘ وفاء الوفاء جلد اول ص 189)

3۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے (ابن اثیر جلد چہارم ص 40)

4۔ نوفل بن ابو انضرت نے فرمایا میں پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ کے پاس تھا۔ پس ایک شخص نے آکر یزید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو یوں کہا۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ‘‘ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ غضبناک ہوئے۔ آپ نے فرمایا تو یزید کو امیرالمومنین کہتا ہے۔ پھر آپ کے حکم پر اس کو بیس کوڑے مارے گئے (الکامل جلد سوم ص 277‘ تہذیب التہذیب جلد 11‘ ص 361‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ما