معذرت اے ارضِ قدس، اَرضِ حرم!! معذرت

اگرچہ ہم جیسوں کی معذرت قبول نہیں ہوتی…

ہاتھ ہیں

مگر وہ تیرے حق میں حرکت نہیں کر سکتے…

پاؤں ہیں

مگر وہ تیری پکار پر لبیک کہتے ہوئے

زمینیں ، سرحدیں اور فاصلے روند کر

تیری طرف نہیں آ سکتے…

زبانیں ہیں

مگر وہ کھل کر، حق نہیں کہہ سکتیں

ان پر یا تو حرص کے پہرے ہیں

یا

خوف کے…

سب جانتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ نے تجھے

اپنے قدوم سے سرفراز فرمایا تھا… مگر

تیرے فراق میں تڑپ نہیں سکتے…

سب کو علم ہے کہ تیری محراب نے اُن کے سجدے کا حظ اٹھایا ہے

مگر

جبینوں میں اس کے لئے سجدے بے تاب نہیں ہوتے…

سب عمر ( رضی اللہ عنہ) کو جانتے ہیں

لیکن ان کی طرح تیری طرف رختِ سفر نہیں باندھ سکتے…

سب صلاح الدین ، نور الدین کو بھی جانتے ہیں

مگر

تیری لئے زندگیاں وقف کرنے والے اب کہاں؟…

لیکن

اقصیٰ کا صدیوں سے سینہ تان کر کھڑا گنبد مایوس نہیں…

ان کی امید، بلکہ یقین زندہ ہے…

عمر کا لشکر پھر آئے گا…

صلاح الدین اُمت کی گود سے ضرور پیدا ہو گا اور آئے گا…

مایوس ہوں گے، ہونے والے مگر

غزہ کا شہر مایوس نہیں…

نابلس کے جانباز… القدس کے فدائی مایوس نہیں…

سنو!

اقصیٰ کے گنبد سے صدا آتی ہے…

کبھی مایوس مت ہونا

اندھیراکتنا گہرا ہو، سحر کی راہ میں حائل، کبھی بھی ہو نہیں سکتا

سویرا ہو کے رہتا ہے

کبھی مایوس مت ہونا

امیدوں کے سمندر میں ، تلاطم آتے رہتے ہیں

سفینے ڈوبتے بھی ہیں

سفر لیکن نہیں رکتا

مسافر ٹوٹ جاتے ہیں

مگر مانجھی نہیں تھکتا، سفر طے ہو کے رہتا ہے

کبھی مایوس مت ہونا

خدا حاضر ہے ، ناظر بھی، خدا ظاہر ہے، مظہر بھی

وہی ہے حال سے واقف ، وہی سینوں کے اندر بھی

مصیبت کے اندھیروں میں

کبھی مایوس مت ہونا

تمہارے دل کی ٹیسوں کو، یوں ہی دُکھنے نہیں دے گا

تمنا کا دیا عاصمؔ کبھی بجھنے نہیں دے گا

کبھی وہ آس کا دریا، کہیں رکنے نہیں دے گا

کبھی مایوس مت ہونا

جب اسکے رحم کا ساگر

چھلک کے جوش کھاتا ہے، قہر ڈھاتا ہوا سورج یکایک کانپ جاتا ہے

ہوا اٹھتی لہرا کر ، گھٹا سجدے میں گرتی ہے

جہاں دھرتی ترستی ہے، وہیں رحمت برستی ہے

ترستے ریگ زاروں پر، ابر بہہ کے ہی رہتا ہے

نظر وہ اٹھ کے رہتی ہے، کرم ہو کر ہی رہتا ہے

امیدوں کا چمکتا دن، امر ہو کے ہی رہتا ہے

کبھی مایوس مت ہونا

٭…٭…٭

میرے موبائل کی سکرین پر ایک احتجاجی مظاہرہ کی ویڈیو چل رہی ہے… اور بار بار چلتی ہی جا رہی ہے…

مظاہرین لاکھوں میں ہیں اور ان کے عقب میں اقصیٰ کا پرشکوہ گنبد اور دلوں کے تار اپنی طرف کھینچ لینے والا خوبصورت دلآویز قبۃ الصخریٰ دکھائی دے رہا ہے…

مجھے آج پاکستانی ہونے پر پہلی بار شدید فخر بھی ہو رہا ہے اور اس کے بعد اپنی حالت پر شدید شرمندگی بھی…

مظاہرین نعرہ لگا رہے ہیں پکار رہے ہیں

یا اہل الاسلام… اے مسلمانو!

یا اہل باکستان… اے پاکستان والو!…

دنیا بھر میں صرف اہل پاکستان ہی کیوں؟

کیا انہیں ہماری افواج امت کی نمائندہ لگتی ہیں

یا ہماری پالیسیاں؟

ہمارے سیاستدان امت کے لئے فکر مند ہیں اس لئے؟…

بالکل نہیں…

اگر ساری دنیا میں نام لے کر صرف پاکستانیوں کو پکارا جا رہا ہے تو صرف اور صرف ان لوگوں کی وجہ سے جو آج اپنوں کے ہاں سب سے زیادہ معتوب ہیں…

وہی دیوانے… وہی غرباء

جو کبھی اہل کشمیر کی صدا سن کر خونی باڑ اور ناقابل عبور پہاڑوں کو روند کر گزر جاتے ہیں…

جو کبھی اہل افغانستان کی پکار پر ہر طرح کے خطرات کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کر حدیں اور سرحدیں پھلانگ جاتے ہیں…

جو امت کے لئے جیتے ہیں اور ان کے لئے مرنا سعادت سمجھتے ہیں…

جو محمدی ہیں… کلمے کے رشتے میں بندھے ہوئے ، قومیتوں ، زبانوں اور علاقوں سے بے نیاز…

اہل قدس کو علم ہے کہ یہ سرزمین ایسے اہل درد سے مالا مال ہے جو کسی بھی امتی کی پکار پر جان وارنے کو دوڑتے چلے جاتے ہیں…

جو ایمانی جذبات کے گھوڑے پر سوار، عزم کی لگامیں تھامے، کان لگائے منتظر بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی پکارنے والا پکارے یا اسلام آواز لگائے…

وہ جان بیچ کر طعنے بھی سہتے ہیں اور الزامات بھی ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں لیکن باز نہیںآتے…

کل تک قریب والوں کی ہر امید ان سے بندھی ہوئی تھی آج دور سے القدس کے بیٹوں نے بھی انہی کو پکارا…

مجھے فخر ہو رہا ہے کہ میں اس قوم سے ہوں اور اس پر مزید شکر یہ کہ انہی لوگوں سے وابستہ ہوں اگرچہ ٹوٹا پھوٹا جھوٹاہی سہی، جو امت کی امیدوں کا اصل محور ہیں…

پر شرمندگی کا احساس رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے کہ

آہ! ثم آہ! ثم آہ

اس قابل نہیں کہ ابھی اٹھ کر اس پکار پر کہہ دوں

لبیک یا قدس لبیک یا قدس…

اب بھی بس یہی کہہ سکتا ہوں یا قدس! عذراً

ربّا!

کیا مشکل ہے آپ کی قدرت کے سامنے

کشمیر کا راستہ دینے والے رب!

قدس کا راستہ عطاء فرما دیجئے!

جو آپ کو جان بیچ ہی چکے انہیں اقصیٰ کے گنبدوں تک پہنچا دیجئے

اس پکار پر لبیک کہنے کے قابل بنا دیجئے…

٭…٭…٭


طلحۃ السیف