مکہ کی فضا ظلم و جور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہو گیا، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ سن 6 نبوی کے اخیر کا ہے، اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔

ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کوہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے، اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہ نکلا۔ پھر وہ خانہء کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں* جا بیٹھا۔ عبداللہ بن جُدعان کی ایک لونڈی کوہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس نے ان سے ابو جہل کی ساری حرکت کہہ سنائی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اٹھے۔۔۔ یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں* ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور یہ تہیہ کئے ہوئے آئے کہ جوں ہی ابو جہل کا سامنا ہوگا، اس کی مرمت کر دیں *گے۔ چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہو کر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: “او سرین پر خوشبو لگانے والے بُزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں“۔ اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بد ترین قسم کا زخم آ گیا۔ اس پر ابو جہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے۔ لیکن ابو جہل نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ ابو عمارہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔
ابتداءً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی۔ لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا۔ اور انہوں نے اسلام کا کڑا مضبوطی سے تھام لیا اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت و قوت محسوس کی۔