حضرت ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ
حضرت ابراہیم ادہم رح نے ایک دفعہ ایک غلام خریدا اس کو لیکر گھر پہنچے اور پوچھا کہ کیا کھاؤ گے؟
غلام:آپ جو کھلائیں گے کھالوں گا۔
ابراہیم ادھم:کیا پہنو گے؟
غلام :آپ کو جو پہنائیں گے پہن لوں گا۔
ابراہیم ادھم:تمہارا نام کیا ہے؟
غلام:آپ جس نام پکاریں گے وہی میرا نام ہوگا۔
ابراہیم ادھم: کیا کام کرو گے؟
غلام:آپ جس کام کے لیے حکم دیں گے۔
ابراہیم ادھم:تمہاری کوئی درخواست؟
غلام :غلام کو درخواست سے کیا کام؟
حضرت ابرہیم ادہم غلام کی گفتگو سن کر گم صم رہ گئے اور پھر اپنا گریبان پکڑ کر کہنے لگے اے بندہ مسکین تو بھی اپنے آقا سے اسی طرح پیش آ جس طرح یہ غلام کہتا ہے بہت دیر تک آپ پر نیم بے ہوشی طاری رہی اس کے بعد اس غلام کو آزاد کر دیا۔

واقعی ہم بھی تو اللہ کی بندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، بندگی یعنی غلامی تو یہ ہوتی ہے جو اس غلام نے بیان کی واقعی ایک غلام تو وہی ہوتا ہے جو مالک کی رضا میں راضی رہے، اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہے، مالک جس حال میں بھی رکھے اسی حال میں رہنا چاہیئے۔ اگر مالک نے اچھے حال میں رکھا تو یہ اس کا احسان ہے اگر مالک نے تنگی اور ترشی میں بھی رکھا ہے تو بندگی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس پر کوئی گلہ نہ کیا جائے۔

ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت ابرہیم ادہم رح سے پوچھا کہ کیا سبب ہے کہ ہم خدا کو پکارتے ہیں اور وہ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا۔حضرت ابرہیم ادہم رح نے فرمایا کہ اس لیے کہ خدا تعالیٰ کو جانتے ہو مگر اس کی عبادت نہیں کرتے -اس کے رسول برحق کو پہچانتے ہو مگر اس کی سنت کی پیروی نہیں کرتے- قرآن پڑھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے- حق تعالیٰ کی نعمت کھاتے ہو مگر اس کا شکر ادا نہیں کرتے- جانتے ہو کہ بہشت مطیع ار فرمانبردار لوگوں کے لیے آراستہ ہے اس کے باوجود اس کی طلب نہیں کرتے- جانتے ہو کہ جہنم کو گناہ گاروں کے لیے آہنی زنجیروں سے آراستہ کیا گیا ہے پھر بھی اس سے نہیں بھاگتے ہو-جانتے ہو کہ شیطان ہمارا دشمن ہے مگر اس کے ساتھ عداوت کے بجائے موافقت رکھتے ہو - جانتے ہو کہ موت ضرور آئے گی لیکن اس کا سامان ( یعنی اعمال صالحہ) نہیں کرتے- ماں باپ اور فرزندوں کو خاک میں دفن کرتے ہو مگر عبرت حاصل نہیں کرتے- اپنے عیبوں سے تو باز نہیں آتے اور دوسروں کی عیب جوئی میں مشغول رہتے ہو۔ پس جس انسان کا یہ حال ہو تو اس کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص حضرت ابرہیم ادہم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے شیخ بہت گناہ گار ہوں اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے، مجھے کوئی نصیحت کیجئے تاکہ اس پر عمل کروں۔ حضرت ابرہیم ادہم نے کہا کہ میں تمہیں کیا نصیحت کروں بس کچھ باتیں ہیں اگر ان پر عمل کر لے تو پھر تجھے کچھ نہیں کہے اول یہ کہ جب تو معصیت ( گناہ) کرے تو اللہ کا دیا ہوا رزق نہ کھانا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے رازق تو اللہ ہی ہے اس کے علاوہ کہاں سے کھاؤں گا؟
فرمایا یہ بات اچھی نہیں کہ آقا ( اللہ ) کی نافرمانی بھی کرے اور اس کا رزق بھی کھائے۔
دوسری بات جب گناہ کرے تو اللہ کی زمین سے نکل کر گناہ کیا کر(یا اس کے ملک سے نکل جا ) اس شخص نے کہا مشرق و مغرب، شمال و جنوب ہر سمت ہر جگہ اللہ کی ہے آخر میں کہاں جاسکتا ہوں؟
فرمایا یہ اچھی بات نہ کہ تو اسی کے ملک میں رہے اور اسی کی نافرمانی کرے۔
تیسری بات یہ کہ جب تو گناہ کرنا چاہے تو ایسی جگہ کر جہاں وہ ( اللہ ) تجھے نہ دیکھ سکے- کہا حضرت اللہ تو ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور دل کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے، ایسی جگہ کونسی ہے جہاں وہ موجود نہ ہو؟
فرمایا یہ بات اچھی نہیں کہ تو اس کو حاضر و ناظر بھی جانے اور پھر اس سے بے دھڑک ہوکر گناہ کرے۔
چوتھی بات یہ کہ جب ملک الموت تیری روح قبض کرنے آئے تو اس کو کہہ دے کہ مجھے توبہ کی مہلت دے۔اس نے کہا بھلا ملک الموت میری بات کیوں مانے گا وہ تو مقررہ وقت پر ہی روح قبض کرے گا؟
فرمایا جب تم کو یہ اختیار نہیں کہ توبہ کے لیے مہلت حاصل کرو تو پھر جو وقت کو غنیمت کیوں نہیں جانتے اور ملک الموت کے آنے سے پہلے توبہ کیوں نہیں کرلیتے؟
پانچویں بات جب قبر میں تیرے پاس منکر نکیر آئیں تو ان کو اپنے پاس سے دور کردے۔( کہہ دینا کہ میں تمہارے سوالوں کے جواب نہیں دونگا)۔اس شخص نے کہا حضرت منکر نکیر کو کون منع کرے گا وہاں کو جواب دینا ہی پڑے گا۔
فرمایا اگر یہ طاقت نہیں ہے تو پھر ان کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کر۔
چھٹی بات یہ کہ قیامت کے دن جب حکم ہوگا کہ گناہ گاروں کو دوزخ میں لے جاؤ تو اس وقت یہ حکم ماننے سے انکار کردینا کہ دینا کہ میں جہنم میں نہیں جاؤں گا میں تو جنت میں جاؤں گا۔اس شخص نے بڑی بے بسی سے کہا حضرت میرے کہنے سے کیا ہوگا وہ تو گناہ گاروں کو زبردستی گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں گے۔

آپ نے فرمایا اے شخص میں تجھے کیا نصیحت کروں تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔پھر گناہ سے باز کیوں نہیں آتا ہے۔

اس شخص پر حضرت کی ان باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ زار زار رونے لگا یہاں تک کہ دل کی معصیت کی سیاہی دور ہوگئی۔اسی وقت سچے دل دے توبہ کی اور مرتے دم تک اس پر قائم رہا۔

محترم قارئین اس میں ہمارے سوچنے کی ایک بات ہے کہ کیا میں اور اپ بھی یہ سب کچھ نہیں جانتے ہیں؟ پھر کیوں نہ ہم بھی آج ہی سچے دل سے توبہ کرلیں