جب سے گرداب کے چکر سے نکل آیا ہوں
ڈھونڈتا پھر تا ہے تقدیر کا چکر مجھ کو

کوچہ ء یار سے اب دار کے تختے کی طرف
لے کے آیا مری تقدیر کا چکر مجھ کو

دل کو تسکین یہی ہے کہ تجھے ڈھونڈ لیا
لوگ کہتے ہیں مقدر کا سکندر مجھ کو

کاش کے بھوک سے مرجاتا کہیں پر میں بھی
پیٹ کے واسطے جانا پڑا در در مجھ کو

آسما ں کہتا ہے ٹوٹا ہوا تارا ہوں میں
تم سجھتے ہو ابھرتا ہوا اختر مجھ کو