Page 1 of 3 123 LastLast
Results 1 to 12 of 30

Thread: عید میلاد النبی ﷺ عالمی تہوار

  1. #1
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default عید میلاد النبی ﷺ عالمی تہوار

    عید میلاد النبی ﷺ عالمی تہوار



    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


    اللہ تعالٰی ہمارا خالق مالک اور معبود حقیقی ہے، وہی ہمارا رب (پالنے والا‘ پروردگار) ہے۔ اس نے اپنی ذات و صفات اور اپنے اسماء و افعال (ناموں اور کاموں) میں کسی کو کسی طرح شریک نہیں کیا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم کسی کو کسی طرح بھی اللہ تعالٰی کا شریک یا اس کی مثل نہ ٹھہرائیں کیونکہ کوئی بھی ذاتی اور حقیقی طور پر خود سے کوئی کمال نہیں رکھتا، نہ ہی کوئی خود سے معرض وجود میں آیا بلکہ یہ تمام کائنات جو کچھ اس میں ہے وہ سب اللہ تعالٰی ہی کا (خلق) پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں انسان کو عزت اور بزرگی عطا کی اور اسے شرف مخلوقات بنایا‘ اسے عقل و شعور عطا کیا۔ انسانوں میں سب ہر لحاظ سے یکسا نہیں، بعض کو بعض پر فضیلت و مرتبت حاصل ہے۔ اندھا اور نابینا اور جاہل اور عالم، سچا اور جھوٹا برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پاک اور پلید ہرگز برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مومن اور کافر برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ محققین کے مطابق کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالٰی کے اسماء و افعال اور صفات و ذات کے مظاہرے کے طور پر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کے نام زیادہ ہیں تو اس کے مظاہر بھی زیادہ ہیں افعال زیادہ ہے تو اس کے مظاہرہ بھی اس قدر ہیں اللہ کریم کی صفات بہت ہیں تو ان کے مظاہر بھی بہت ہیں مگر اللہ تعالٰی کی ذات ایک واحد (حقیقی) ہے تو اس کا مظہر کامل بھی ایک ہے اور وہ اس کا حبیب مقصود کائنات، جان کائنات (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جن کے لئے خود اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ اگر اس ہستی کو نہ بناتا تو میں خود کو بھی ظاہر نہ کرتا اور کچھ بھی نہ بناتا۔ یعنی رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو کچھ بی نہ ہوتا۔ اس ارشاد ربانی سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام کائنات دراصل حضور اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ و طفیل ہے۔ خود نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے نور سے ہوں اور باقی تمام مخلوق میرے نور سے ہے یعنی اگر اللہ کا نور نہ ہوتا، تو میں نہ ہوتا اور میں نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ہمارے نبی پاک آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی شان خالقیت ہی کی نہیں بلکہ اللہ کی ذات کی بھی سب سے بڑی اور کامل دلیل ہیں اسی لئے قرآن میں انھیں برہان ربی فرمایا گیا ہے۔ اہل علم بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دلیل کی عمدگی اور پختگی اور درستی بلاشبہ دعوٰی کی درستی اور پختگی کی ضمانت ہوتی ہے اور دلیل کا نقص دعوٰی کے نقص کو ظاہر و ثابت کرتا ہے یوں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا جانے والا ہر کمال دراصل اللہ تعالٰی کے کمالات کی دلیل و برہان ہے تاکہ دیکھنے سننے والے یہ جان لیں کہ جس کی مخلوق اور عبد مقدس کی یہ شان ہے خود اس رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا ہر آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہو گا‘ اسی طرح اللہ پاک کی شان خالقیت کے صحیح اور کامل رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں جب کے باقی کسی اور کے لئے یہ وعدہ مرکوز نہیں اور عام مخلوق کے لئے “ہر کمالے راز والے“ کی کہاوت مشہور ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے یا ہر صاحب کمال کو زوال ہے اور ہمارے لئے یہ تعلیم ہے کہ ہم زوال نعمت سے بچاؤ اور تحفظ کی دعاء کیا کریں۔
    ہمارے رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی خلقت تمام جہانوں بلکہ تمام کائنات سے پہلے ہوئی جس کے بارے میں صحیح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ ہماری رہنمائی کرتا ہے اور نبی پاک کی ولادت تمام انبیاءکرام کے آخر میں ہوئی ہو وہ خلق کے لحاظ سے اور اول اور بعثت (ظہور) کے لحاظ سے آخر ہیں، رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت محرم یا حرمت والے دیگر مہینوں یا ماہ رمضان میں ہوئی۔ اور نہ ہی مختلف ادیان و اقوام کے نزدیک اہم ہفتے کے دیگر ایام میں ہوئی اس لئے کہ ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو ماہ ایام اور زمان و مکان سے شرف (بزرگی) نہیں ملا بلکہ جس کسی کو جو کوئی شرف اور فضیلت ہے وہ نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ مشہور اسکالر مولانا کاثر نیازی اپنی تحریر میں نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں “اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے لئے نصیحت، ان کے دلوں کے لئے شفاء اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہونے والی مقدس اور متبرک ہستی کو عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں شریف آوری کوئی عام یا معمولی واقعہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین اور اہم ترین واقعہ ظہور پذیر ہوا وہ جمیع نوع انسانی کے لئے ایک یادگار دن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بہ نظر غائرد دیکھا جائے تو عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی تمام عیدوں کا مبداء ہے۔ آں حضور کا ظہور پرنور ہوا تو خلق خدا کو خدائے تبارک وتعالٰی کی ہستی کا شعور حاصل ہوا۔ توحید کا ادارک اور وحدانیت کا اقرار احکام خداوندی کی تعلیم عبادات کی تفہیم سب آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مقدس کی مرہون منت ہیں۔ رمضان شریف کی فضیلتیں آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہم پر ظاہر ہوئیں اور انہی فضیلتوں سے متمتع ہونے کے بعد ہم عیدالفطر کی مسرتوں کے مستحق ہوئے اسی طرح آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے ہی ہمیں حج اور قربانی کے طریقے سکھائے جو کی بناء پر ہمیں عیدالاضحٰی کی خوشیاں نصیب ہوئیں‘ پس یوم مبارک عیدین سعیدین کی تقریبات کا مبداء ہے وہ تو کہیں زیادہ مسرت و ابتہاج کا دن ہے اور وہ ہی تو ایسا دن ہے جسے ہم سب سے بڑی عید کا دن کہہ سکتے ہیں“ مولانا کی اس واضح اور بصیرت افروز تحریر میں یہ بھی ہے کہ “پس اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ انعامات خداوندی کے نزول پر شکر واجب ہے تو یقیناً ان نعمتوں کو ہم تک پہچانے والے کی آمد پر بھی شکر لازم ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ ان نعمتوں کا پہنچانے والا محض ایک قاصد یا پیام رساں نہیں بلکہ خود بھی مجسم رحمت ہے اور مجسم رحمت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لٰہذا اس افضل ترین نوع بشر کے یوم ولادت پر اظہار مسرت کرنا اور آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی مدح و توصیف بیان کرنا یقیناً ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔“ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا یوم ولادت “پیر“ ہے اور ماہ ولادت “ربیع الاول“ ہے۔ شمسی و عیسوی تقویم کے حساب سے قطعی و یقینی طور پر کوئی تاریخ اب تک بیان نہیں کی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہجری تقدیم ہی اسلام اور مسلمان میں رائج ہے عہد رسالت میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا اور اسے قانونی اور سرکاری طور پر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں نافذالعمل قرار دیا گیا۔ اسلامی ممالک میں ہجری تقویم کے مطابق اسلامی تہوار منائے جاتے ہیں کیونکہ وہ تمام تہوار اسی تقویم سے وابستہ ہیں لیکن ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس تقویم سے قیام و نفاذ سے پہلے کا
    ..

  2. #2
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default jj

    واقعہ ہے اور رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) تمام جہانوں کے لئے رسول اور مجسم رحمت بن کر تشریف لائے اس لئے ان کا یوم میلاد ہر تقویم کے مطابق بھی اہم سمجھا جانا چاہئیے اور جس رسول کے بعثت عالم گیر و جہان گیر ہے اس کی آمد کا دن ہر زمان و مکان اور ملک و قوم کے لئے یادگار اور اہم ہے۔ جن ممالک میں ہجری تقویم مروج نہیں حالاں کہ وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے وہاں عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت اور عظمت مسلملہ ہے اور ان علاقوں میں کوئی ایک متفقہ تاریخ ضرور ایسی ہونی چاہئیے جو طے شدہ اور موجودہ دور تاریخ شمسی و عیسوی تقویم ہی حساب سے ہو سکتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘ اسلامی تاریخ کے مطابق ان کی ولادت دس محرم یعنی عاشورہ کو ہوئی لیکن دنیا بھر میں 25دسمبر کی تاریخ تحقیق سے ثابت نہ ہونے کے باوجود تمام ملکوں اور قوموں میں رائج ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار حضرت عیسٰی علیہ السلام کے یوم ولادت کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ جانے کیوں یہ گمان ہوتا ہے کہ نبیوں کے سرادر امام اور انسان کامل رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تاریخ ولادت شمسی و عیسوی تقویم کے حساب سے طے کئے جانے میں نصارٰی و غیر مسلم ہی رکاوٹ ہیں شاید وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا تہوار بھی ہو جسے دنیا بھر میں ایک ہی تاریخ اور دن میں یادگار بنا کر مسلمان اپنی وحدت اور اجتماعیت کا اظہار کر سکیں، انھیں یہ خدشہ و اندیشہ بھی ہو گا کہ یوں کرسمس کا تہوار اپنی شہرت و حیثیت قائم نہیں رکھ سکے گا۔ امریکا، افریکا اور یورپ وغیرہ میں صنعت کار تاجر اور احکام اپنے ملازمین اور وابستگان کو انعامات و تحائف وغیرہ کرسمس ہی کے موقع پر دیتے ہیں، یوں وہ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو تالیف قلبی بھی کرتے ہیں اور ان ممالک میں مقیم مقامی و مہاجر مسلمان بھی اسی طرز و طریق کو اپنائے ہوئے ہیں اور ایسے ممالک میں بسنے والے اکثر مسلمانوں کو جہری تقویم کا چند ایام کے سوا نہ علم ہوتا ہے اور نہ انھیں جستجو ہوتی ہے کہ وہ جہری تقویم سے بخوبی آگاہ ہوں۔ بارہ ربیع الاول کو جشن عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) قوی سطح پر صرف اسلامی ممالک میں مقیم یا چند دوسرے ممالک میں منایا جاتا ہے۔ مصر، عراق، ایران، اردن، سوڈان، عرب امارات وغیرہ میں سرکاری طور پر بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے قومی عام تعطیل ہوتی ہے، مگر یورپ امریکا اور افریکا وغیرہ میں وہاں چھوٹی بستیوں میں مقیم اور مختلف ملازمت پیشہ مسلمان جہری تقویم کی ہر سال موسم و ایام میں تبدیلی کے باعث سرکاری مجبوریوں کی وجہ سے نہیں مناتے البتہ جہاں کئی بھی کوشش کی گئی ہے کسی قدر اہتمام ہوا ہے اور مسلم تنظیمیں بساط بھر کوشش کر رہی ہیں جب کہ یہ وہ عظیم اور اسلامی تہوار ہے جسے تمام مسلمانوں کو اپنی اجتماعیت کے ساتھ بھرپور طریقے سے منانا چاہئے اور اس موقع پر دین مصطفٰی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو عام کرنا اور پھیلانا چاہئیے۔ اسلامی ممالک میں ربیع الاول کے علاوہ اگر شمسی حساب سے بھی اس دن کو منایا جائے تو دنیا بھر میں وہ دن اہم اور یادگار ہو جائے گا۔ پاکستان میں جو کہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں یوم میلاد کی مختصر سی سرکاری تقریب ہوا کرتی تھی، اس کا بڑے پیمانے پر سرکاری اہتمام “ورزات مذہبی امور“ کے قیام کے بعد ہوا۔ اس سرکاری تقریب کے انعقاد و اہتمام کے لئے ایک قومی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا نام “قومی سیرت کمیٹی“ رکھا گیا، مولانا کوثر نیازی اس کے سربراہ ہوئے کیونکہ وہی اس وزارت کا قلم دان بھی رکھتے تھے۔ حضرت مولانا شار عارف اللہ قادری، خطیب اعظم حضرت مولانا شفیع اوکاڑوی اور احتشام تھانوی بھی اس کمیٹی کے بنیادی ارکان میں شامل تھے۔ عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) منانے کے لئے کمیٹی کا نام “عیدمیلاد کمیٹی“ ہونا چاہئیے تھا، کیونکہ میلاد منایا جاتا ہے اور سیرت اپنائی جاتی ہے لیکن نہیں معلوم کہ اہل علم نے اس نام پر توجہ کیوں نہیں دی ؟ اس سرکاری کمیٹی نے بھی ایسی تحقیق پر توجہ نہیں دی کہ شمس تقویم کو ہی کافی سمجھا گیا لیکن یہ خیال نہیں کیا گیا کہ اس طرح یہ دن صرف اہل ایمان ہی کے لئے یادگار رہے گا اور وہی اس سے واقف رہیں گے۔ یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ بارہ ربیع الاول کو عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) منانے کا سلسلہ روکنے یا ختم کرنے کا کوئی وہم یا خیال ہے ایسی سوچ بھی غلط اور ناممکن ہے تجویز صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں ہجری تقویم رائج نہیں وہاں ارو ہر جگہ ایک متفقہ تاریخ ایسی بھی ہو جس میں سب شامل و شریک ہو سکیں اور وہ تاریخ فرضی یا مجوزہ نہ ہو بلکہ تحقیق کے مطابق قطعی اور یقینی ہو، اور اس سے آگہی کوئی بہت مشکل نہیں، شبلی نعمانی نے 20اپریل 571ء اور قاضی سلیمان منصور پوری نے 22اپریل 571ء بتائی ہے جب کہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحقیق کے مطابق 17 اپریل جون 569ء درج کی ہے اس کے علاوہ بعض سیرت نگاروں نے اگست بتایا۔ جامعہ ازہر کے کلیہ اصول کے سربراہ محمد ابراہیم عرجون نے 20 اگست 570ء اور علامہ محمد رضا مصری نے بھی یہی تاریخ لکھیں۔ اعلٰی حضرت مولانا شاہ احمدرضا بریلوی نے ماہ اپریل ہی کی تائید کی ہے، جدید سہولتوں اور آلات کی مدد سے صحیح تاریخ کی تحقیق یقیناً دشوار کام نہیں، اس شعبے میں ماہرین یہ کام سرانجام دینے پر مامور کیے جائیں تو وہ ضرور حقائق واضح کر دیں گے۔ احادیث نبوی سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا دن (پیر دوشنبہ) ہے اور مستند و معتبر ہستیاں بارہ ربیع الاول پر متفق ہیں کچھ لوگ تاریخ ولادت پر اختلاف کو یوں بھی بڑھاتے ہیں کہ شاید وہ اس بہانے اہل ایمان جشن ولادت منانے سے روک سکیں۔ مگر ایسا ہونا نہ ممکن ہے قرآن و حدیث سے نعمت کے حصول پر اظہار کا حکم اور جواز ثابت ہے اور قرآن میں نبی کریم کی ولادت پر سلام کا واضح بیان ہے۔ نزول مائدہ کے دن کا عید ہونا قرآن سے ثابت ہے پھر جان کائنات کی آمد سے بڑھ کر کیا خوشی اور ان کی ذات سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے ؟ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی شریف میں پورا باب “عید میلاد النبی“ کے عنوان سے موجود ہے اور اس موضوع پر اکابر اہل علم کا تحقیقی سرمایہ کتابوں میں محفوظ ہے جس کے بعد کسی تردود کی گنجائش نہیں رہتی اور احادیث سے ثابت ہے کہ اپنے حبیب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد خود اللہ نے منایا۔ مسلم شریف حدیث کی نہایت اہم کتاب ہے اس میں روایت موجود ہے کہ بارہ ربیع الاول کو جب رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے مدینے منورہ پہنچے تو اصحاب نبوی اور اہل مدینہ نے آمد مصطفٰی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا جسن منایا، پر چم لہرائے، یارسول اللہ یارسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے نعرے لگائے اور خوشی میں جلوس نکالا، دف بجا کر بچیوں نے خوشی کے نغمے گائے اسی کی یاد میں ہر سال اہل ایمان آمد رسول کی یاد میں جلوس نکالتے ہیں۔ یہ جلوس اب برطانیہ امریکا اور افریکا کے ملکوں میں بھی نکالا جانے لگا ہے۔ رسول پاک کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بیان کے مطابق ولادت رسول کے وقت فرشتوں نے پرچم لہرائے، ستارے مکان ولادت کی چھت پر سمٹ گئے اور فرشتوں اور حوروں نے فضا میں کھڑے ہو کر سلام کی صدائیں بلند کیں۔ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ یوں ثابت ہوا کہ میلادشریف کے موقع پر چراغاں کرنا، پرچم لہرانا اور دورد و سلام کے زم زمے بلند کرنا اللہ تعالٰی کی سنت ہیں اس بیان کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض کتابوں میں یہ درج ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی اس دنیا میں رحلت کی تاریخ بھی بارہ ربیع الاول ہے یوں کچھ لوگ یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تاریخ وفات میں جشن منانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ یقیناً یہ شرارت بھی غیر مسلموں کی ہے تاکہ مسلمان آپس میں الجھتے رہیں علاوہ ازیں یہود و نصارٰی بھی یہی دیکھتے ہیں کہ عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا جشن مناتے ہوئے مسلمان اپنی ایمانی عقیدت و محبت اور جوش و جذبے کا والہانہ اظہار کرتے ہیں وہ کسی اور تہوار میں دیکھنے سننے میں نہیں آتا وہ کب گوارہ کر سکتے ہیں کہ مسلمان کا ایمان جوش و جذبہ بڑھے اسی لئے وہ اپنے آلہ کار افراد کے ذریعے مسلمانوں میں باہمی اور رنجشوں میں الجھاتے ہیں۔ اس بارے میں مستند اور معتبر کتابوں سے تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ تاریخ وصال (2) ربیع الاول ہے محقیقین کا کہنا ہے کہ تحریر میں کسی ہندسے کو لکھنے کے بعد اسے باقی الفاظ یا اعداد سے جدا ظاہر کرنے کے لئے علامت کے طور پر ترچھا نشان لگایا جاتا ہے اسے کتابت یا کاتب کی غلطی سے ہندسی شمار کرکے 2 کو 12 پڑھ لیا گیا ورنہ گیارہ ہجری میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے بھی نہیں آتی اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا وصال پیر کے دن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی نے بھی بہت ذمہ داری کے ساتھ اس تحقیق کو اپنی کتاب “سیرۃ النبی“ میں تحریر کیا۔ جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں‘ اور تاریخ کی تحقیق نہیں ہوئی اور بارھویں (تاریخ) جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہوتا کیوں کہ اس سال ذی الحجہ کی نویں (تاریخ) جمعہ کو تھی اور یوم وصال دو شنبہ (پیر) ثابت ہے پس جمعہ کی نویں ذی الحجہ ہو کر بارہ ربیع الاول دو شنبہ کو کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ (نشرالطیب، ص302، مطبوعہ انڈیا) وہ مذید لکھتے ہیں : “حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تاریخ وصال ربیع الاول کی بارہ غلط مشہور ہے۔ نوین تاریخ کو حضور نے حج کیا اور وہ جمعہ کا دن تھا اور اسی سال وصال ہوا، اور دوشنبہ کوئی۔ یہ مقدمات سب متواتر اور قطعی ہیں اب اس کے بعد کوئی حساب ایسا نہیں ہو سکتا جس سے دو شنبہ کو بارہ ربیع الاول ہو، خدا معلوم یہ کہاں سے ہو گیا۔“ (افاضات یومیہ، ص210 حصہ ششم) جناب ابوالکلام سے مقالات “رسول رحمت“ میں بہت وثوق سے لکھا ہے کہ بارہ ربیع الاول 11 ہجری میں تاریخ وصال ہرگز بارہ نہیں۔ البدایہ والنہایہ کو بہت معتبر اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ 340 میں اور طنقات ابن سعد جلد دوم صفحہ 316 میں، علاوہ ازیں سیرۃ حلبیہ، وفاء الوفاء، روض الانف اور تاریخ الاسلام (ذہبی) میں بھی صراحت ہے کہ تاریخ وصال بارہ ربیع الاول نہیں ہے اور تفسیر مظہری جلد دوم کے


  3. #3
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default j

    صفحہ 110 میں بھی ہے کہ دو (2) ربیع الاول تاریخ وصال ہے بارہ نہیں۔ تابعین کے سرگروہ ابن شہات زہری، سلیمان بن طرخان اور سعد بن ابراہیم زہری جیسے افراد نے رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وصال کی تاریخ دو (2) ربیع الاول بتائی ہے۔ اصحاب نبوی ہی سے تابعین نے علم حاصل کیا اور محفوظ کیا، ان کے بعد کسی غیر ثقہ شخص یا مؤرخ کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اہل علم نے یہ بھی جواب دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے میلاد و وصال کا دن جمعہ ہے مگر شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ وفات کا نہیں ہے اور میلاد آدم کی خوشی میں جمعہ کا دن اہل ایمان کے لئے عید کا دن بتایا گیا، ہر ہفتے میں جمعہ کے دن اہل ایمان میلاد آدم کی خوشی میں عید مناتے ہیں اور کسی کو یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہی دن ان کے وصال کا بھی ہے اس لئے اس دن میلاد آدم خوشی منانا اچھا کام نہیں! جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ غیر مسلم اور دشمن عناصر ہرگز نہیں چاہتے کہ مسلمان شان و شوکت سے اپنے پیارے نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد منا کر اپنی ایمانی اخوت اور ملی خدمات کو اجاگر کریں اس لئے وہ بے بنیاد اور غیر حقیقی باتیں مسلمانوں کو لڑوانے اور اسلام تہواروں و تقریبات منانے سے روکنے کے لئے پھیلاتے ہیں۔ یہ حیققت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی آمد بلا شبہ اللہ کا احسان عظیم ہے اس احسان پر جس قدر ہدیہ تشکر پیش کیا جائے کم ہے اور کرم کی انتہا ہے کہ جو رحمت عالم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرتا ہے اس سے والہانہ محبت کرتا ہے ان کی فرماں برداری اور پیروی کرتا ہے اس کی آمد کی خوشی مناتا ہے وہ نہ صرف دونوں جہان میں فوز فلاح، راحت و رحمت اور خیر و برکت پاتا ہے بلکہ خود کو اپنے محبوب کریم کا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے۔ جشن میلاد منانا وہ سعادت ہے جو رضائے رب سے مشرف کرتی ہے، یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے، تاابد جاری رہے گا۔

    صدائیں درودوں کی آتی رہیں گے
    جنھیں سن کے دل شاد ہوتا رہے گا
    خدا ہل ایمان کو آباد رکھے
    محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد ہوتا رہے گا

  4. #4
    shahsaeein is offline Member
    Last Online
    2nd June 2011 @ 02:37 PM
    Join Date
    07 Dec 2006
    Location
    Muscat, Oman
    Age
    46
    Posts
    1,692
    Threads
    99
    Thanked
    0

    Default

    خرم بھائی۔۔ ماشاءاللّٰہ زبردست شئرنگ۔۔
    بہت اعلٰی ۔۔

    sHAH

  5. #5
    Real_Light is offline Member
    Last Online
    22nd February 2016 @ 03:49 AM
    Join Date
    15 Oct 2006
    Location
    Hong Kong
    Posts
    9,415
    Threads
    501
    Thanked
    0

    Lightbulb Subhaan Allah

    Salamun salam

    Brother app ki thehreer o intakhab ki daad datay hain. Afreen hay brother app nay kamal ker dia. Ankahin tars gie thi kisi asi tehreer ko jiss ko per ker dil Mohabat e Islam main sershar o purmasrat ho ga'ay.

    Albata sirf aik baat jes main ekhtalaf e fiker keron ga wo yeh keh Rasalat Maab Hazrat Muhammad Silil'la ho alahay wa aalayhi waslum ka youm e melad esawi tareekh main ma'na'nay ki mozamat...(wasay to ais din ko hum hadood o quoud say mobera samijtay hian jab chahain eshq e mustafa main ser dhunh lain)
    kioun keh muslam honay kay naatay ager hum khud hi islami tawareekh o ay'yam ki pass'dari nahi kerain gay aur us ko 12 rabi'oul awal ki ba'jaey kisi aur youm ko jo easawi youm ho ko ma'na'na shuroo ker dain to ais wakat jab keh jamhoor muslameen 12 rabi ul awal kay din youm e milad rasalat maab Silil'la ho alahay wa aalayhi waslum ma'na rahay hain wo mokhlafat kerain gay aur natee'ja'tun pher mazid do fikrain, do ga'roh bun jaeain gay. jo keh milat o mazhib ka nuksan ho ga.

    aur muslam honay kay natay humain islami calander ko he terjeh danay cha'heay na kay esawi calander ko. yeh koi youm e pakistan to hay nahi keh ais ko 14 Augusat ko chahoo to mana lo, aur ramazan kay mahenay main chahoo to mana lo kion keh jab pakistan bana tha us wakat islami mahena ramazan mokadis hi tha.

    app rasalat maab Silil'la ho alahay wa aalayhi waslum kay naam kay sath darood sharif pora likha jiss say dil waki pur maserat howa. baz log ais maid da'nista ya na'da'nista yeh galti ker jatay hain.

    baki app nay elm kay wo goher e khass hamray samanay rakahay hain keh dil waki pur masurat aur shadmaan howa.

    Allah j tabarik wa tala app ko mazid elim o cha'shane day.

  6. #6
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default

    tha khank u janab

  7. #7
    Real_Light is offline Member
    Last Online
    22nd February 2016 @ 03:49 AM
    Join Date
    15 Oct 2006
    Location
    Hong Kong
    Posts
    9,415
    Threads
    501
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Lightbulb Dua

    Salamun salam
    Allah j app ko Deen e Mobeen e islam ki mazeed Khdmit kernay ka mouka day.

    Ameen Suma Ameen

  8. #8
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    جشن ميلاد النبى كا حكم

    الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام على نبينا محمد و آلہ و صحبہ اجمعين، و بعد:
    سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے سب صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:
    كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارہ جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.
    اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
    {كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا} آل عمران ( 31 ).
    اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
    {جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو}الاعراف ( 3 ).
    اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
    {اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ كے راستہ سے جدا كرديں گے} الانعام ( 153 ).
    اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات كى ايجاد ہے"
    اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    " جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"
    صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 )
    اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ:
    " جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
    لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے ) اور يہ جشن كئى اقسام و انواع ميں منايا جاتا ہے:
    كچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں.
    اور كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں.
    اور ان ميں سے كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں.
    اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں.
    جشن ميلاد النبى كى جتنى بھى انواع و اقسام ہيں، اور اسے منانے والوں كے مقاصدہ چاہيں جتنے بھى مختلف ہوں، بلاشك و شبہ يہ سب كچھ حرام اور بدعت اور دين اسلام ميں ايك نئى ايجاد ہے، جو فاطمى شيعوں نے دين اسلام اور مسلمانوں كے فساد كے ليے پہلے تينوں افضل دور گزر جانے كے بعد ايجاد كى.
    اسے سب سے پہلے منانے والا اور ظاہر كرنے والا شخص اربل كا بادشاہ ملك مظفر ابو سعيد كوكپورى تھا، جس نے سب سے پہلے جشن ميلاد النبى چھٹى صدى كے آخر اور ساتويں صدى كے اوائل ميں منائى، جيسا كہ مورخوں مثلا ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے.
    اور ابو شامہ كا كہنا ہے كہ:
    موصل ميں اس جشن كو منانے والا سب سے پہلا شخص شيخ عمر بن محمد ملا ہے جو كہ مشہور صلحاء ميں سے تھا، اور صاحب اربل وغيرہ نے بھى اسى كى اقتدا كى.
    حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى " البدايۃ والھايۃ" ميں ابو سعيد كوكپورى كے حالات زندگى ميں كہتے ہيں:
    ( اور يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد شريف منايا كرتا تھا، اور اس كا جشن بہت پرجوش طريقہ سے مناتا تھا،...
    انہوں نے يہاں تك كہا كہ: بسط كا كہنا ہے كہ:
    ملك مظفر كے كسى ايك جشن ميلاد النبى كے دسترخوان ميں حاضر ہونے والے ايك شخص نے بيان كيا كہ اس دستر خوان ( يعنى جشن ميلاد النبى كے كھانے ) ميں پانچ ہزار بھنے ہوئے بكرے، اور دس ہزار مرغياں، اور ايك لاكھ پيالياں، اور حلوى كے تيس تھال پكتے تھے..
    اور پھر يہاں تك كہا كہ:
    اور صوفياء كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع كا انتظام كرتا اور اس ميں خود بھى ان كے ساتھ رقص كرتا اور ناچتا تھا.
    ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 13 / 137 ).
    اور " وفيات الاعيان " ميں ابن خلكان كہتے ہيں:
    اور جب صفر كا شروع ہوتا تو وہ ان قبوں كو بيش قيمت اشياء سے مزين كرتے، اور ہر قبہ ميں مختلف قسم كے گروپ بيٹھ جاتے، ايك گروپ گانے والوں كا، اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والوں كا، ان قبوں ميں سے كوئى بھى قبہ خالى نہ رہنے ديتے، بلكہ اس ميں انہوں نے گروپ ترتيب ديے ہوتےتھے.
    اور اس دوران لوگوں كے كام كاج بند ہوتے، اور صرف ان قبوں اور خيموں ميں جا كر گھومتے پھرنے كے علاوہ كوئى اور كام نہ كرتے...
    اس كے بعد وہ يہاں تك كہتے ہيں:
    اور جب جشن ميلاد ميں ايك يا دو روز باقى رہتے تو اونٹ، گائے، اور بكرياں وغيرہ كى بہت زيادہ تعداد باہر نكالتے جن كا وصف بيان سے باہر ہے، اور جتنے ڈھول، اور گانے بجانے، اور كھيل تماشے كے آلات اس كے پاس تھے وہ سب ان كے ساتھ لا كر انہيں ميدان ميں لے آتے...
    اس كے بعد يہ كہتے ہيں:
    اور جب ميلاد كى رات ہوتى تو قلعہ ميں نماز مغرب كے بعد محفل سماع منعقد كرتا.
    ديكھيں: وفيات الاعيان لابن خلكان ( 3 / 274 ).
    جشن ميلاد النبى كى ابتداء اور بدعت كا ايجاد اس طرح ہوا، يہ بہت دير بعد پيدا ہوئى اور اس كے ساتھ لہو لعب اور كھيل تماشہ اور مال و دولت اور قيمتى اوقات كا ضياع مل كر ايسى بدعت سامنے آئى جس كى اللہ تعالى نے كوئى دليل نازل نہيں فرمائى.
    اور مسلمان شخص كو تو چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كرے اور جتنى بھى بدعات ہيں انہيں ختم كرے، اور كسى بھى كام كو اس وقت تك سرانجام نہ دے جب تك اسے اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم معلوم نہ ہو.
    جشن ميلاد النبى صلى الله عليه وسلم كا حكم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع اور مردود ہے:
    اول:
    كيونكہ يہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء راشدين كى سنت ہے.
    اور جو اس طرح كا كام ہو يعنى نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہو اور نہ ہى خلفاء راشدہ كى سنت تو وہ بدعت اور ممنوع ہے.
    اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت پر عمل پيرا رہو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے"
    اسے احمد ( 4 / 126 ) اور ترمذى نے حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے.
    ميلاد كا جشن منانا بدعت اور دين ميں نيا كام ہے جو فاطمى شيعہ حضرات نے مسلمانوں كے دين كو خراب كرنے اور اس ميں فساد مچانے كے ليے پہلے تين افضل ادوار گزر جانے كے بعد ايجاد كيا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كام كرے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود كيا اور نہ ہى اس كے كرنے كا حكم ديا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين نے كيا ہو، تو اس كے كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا اور اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ تہمت لگتى ہے كہ ( نعوذ باللہ ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين اسلام كو لوگوں كے ليے بيان نہيں كيا، اور ايسا فعل كرنے سے اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كى تكذيب بھى لازم آتى ہے:
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {آج كے دن ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے} المائدۃ ( 3 ).
    كيونكہ وہ اس زيادہ كام كو دين ميں شامل سمجھتا ہےاور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ہم تك نہيں پہنچايا.
    دوم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانے ميں نصارى ( عيسائيوں ) كے ساتھ مشابھت ہے، كيونكہ وہ بھى عيسى عليہ السلام كى ميلاد كا جشن مناتے ہيں، اور عيسائيوں سے مشابہت كرنا بہت شديد حرام ہے.
    حديث شريف ميں بھى كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا گيا اور ان كى مخالفت كا حكم ديا گيا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:
    " جس نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے"
    مسند احمد ( 2 / 50 ) سنن ابو داود ( 4 / 314 ).
    اور ايك روايت ميں ہے:
    " مشركوں كى مخالفت كرو"
    صحيح مسلم شريف حديث ( 1 / 222 ) حديث نمبر ( 259 ).
    اور خاص كر ان كے دينى شعائر اور علامات ميں تو مخالف ضرور ہونى چاہيے.
    سوم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت اور عيسائيوں كے ساتھ مشابہت تو ہے ہى، اور يہ دونوں كام حرام بھى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اسى طرح يہ غلو اور ان كى تعظيم ميں مبالغہ كا وسيلہ بھى ہے، حتى كہ يہ راہ اللہ تعالى كے علاوہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنے اور مانگنے كى طرف بھى لے جاتا ہے، اور شركيہ قصيدے اور اشعار وغيرہ بنانے كا باعث بھى ہے، جس طرح قصيدہ بردہ وغيرہ بنائے گئے.
    حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان كى مدح اور تعريف كرنے ميں غلو كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:
    " ميرى تعريف ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح نصارى نے عيسى بن مريم عليہ السلام كى تعريف ميں غلو سے كام ليا، ميں تو صرف اللہ تعالى كا بندہ ہوں، لھذا تم ( مجھے ) اللہ تعالى كا بندہ اور اس كا رسول كہا كرو"
    صحيح بخارى ( 4 / 142 ) حديث نمبر ( 3445 )، ديكھيں فتح البارى ( 6 / 551 ).
    يعنى تم ميرى مدح اور تعريف و تعظيم ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح عيسائيوں نے عيسى عليہ السلام كى مدح اور تعظيم ميں مبالغہ اور غلو سے كام ليا، حتى كہ انہوں نے اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرنا شروع كردى، حالانكہ اللہ تعالى نے انہيں ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:
    {اے اہل كتاب تم اپنے دين ميں غلو سے كام نہ لو، اور نہ ہى اللہ تعالى پر حق كے علاوہ كوئى اور بات كرو، مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اور صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ہيں، جسے اس نے مريم كى جانب ڈال ديا، اور وہ اس كى جانب سے روح ہيں} النساء ( 171 ).
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر ہميں اس غلو سے روكا اور منع كيا تھا كہ كہيں ہميں بھى وہى كچھ نہ پہنچ جائے جو انہيں پہنچا تھا، اسى كے متعلق بيان كرتے ہوئے فرمايا:
    " تم غلو اور مبالغہ كرنے سے بچو، كيونكہ تم سے پہلے لوگ بھى غلو اور مبالغہ كرنے كى بنا پر ہلاك ہو گئے تھے"
    سنن نسائى شريف ( 5 / 268 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 2863 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے
    سیگنچر میں آئی ٹی دنیا کے لنک علاوہ کسی اور ویب سائٹ کے لنک کی اجازت نہیں
    شکریہ
    آئی ٹی دنیا ٹیم

  9. #9
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    چہارم:
    جشن ميلاد كى بدعت كا احياء اور اسے منانے سے كئى دوسرى بدعات منانے اور ايجاد كرنے كا دروازہ بھى كھل جائے گا، اوراس كى بنا پر سنتوں سے بے رخى اور احتراز ہو گا، اسى ليے آپ ديكھيں كہ بدعتى لوگ بدعات تو بڑى دھوم دھام اور شوق سے مناتے ہيں، ليكن جب سنتوں كى بارى آتى ہے تو اس ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرتے ہوئے ان سے بغض اور ناراضگى كرتے ہيں، اور سنت پر عمل كرنے والوں سے بغض اور كينہ و عداوت ركھتے ہيں، حتى كہ ان بدعتى لوگوں كا سارا اور مكمل دين صرف يہى ميلاديں اور جشن ہى بن گئے ہيں، اور پھر وہ فرقوں اور گروہوں ميں بٹ چكے ہيں اور ہر گروہ اپنے آئمہ كرام كے عرس اور ميلاديں منانے كا اہتمام كرتا پھرتا ہے، مثلا شيخ بدوى كا عرس اور ميلاد، اور ابن عربى كا ميلاد، اور دسوقى اور شا ذلى كا ميلاد، ( ہمارے يہاں بر صغير پاك و ہند ميں تو روزانہ كسى نہ كسى شخصيت كا عرس ہوتا رہتا ہے كہيں على ھجويرى گنج بخش اور كہيں اجمير شريف اور كہيں حق باہو اور كہيں پاكپتن، الغرض روزانہ ہى عرس ہو رہے ہيں ) اور اسى طرح وہ ايك ميلاد اور عرس سے فارغ ہوتے ہيں تو دوسرے ميلاد ميں مشغول ہو جاتے ہيں.
    اور ان اور اس كے علاوہ دوسرے فوت شدگان كے ساتھ اس غلو كا نتيجہ يہ نكلا كہ اللہ تعالى كو چھوڑ كر انہيں پكارنا شروع كر ديا گيا اور ان سے مراديں پورى كروائى جانے لگى ہيں، اور ان كے متعلق ان لوگوں كا يہ عقيدہ اور نظريہ بن چكا ہے كہ يہ فوت شدگان نفع و نقصان كے مالك ہيں، اور نفع ديتے اور نقصان پہنچاتے ہيں، حتى كہ يہ لوگ اللہ تعالى كےدين سے نكل كر اہل جاہليت كے دين كى طرف جا نكلے ہيں، جن كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
    {اور وہ اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرتے ہيں جو نہ تو انہيں نقصان پہنچا سكتے ہيں اور نہ ہى كوئى نفع دے سكتے ہيں، اور وہ كہتے ہيں كہ يہ ( مردے اور بت ) اللہ تعالى كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں} يونس ( 18 ).
    اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
    {اور جن لوگوں نے اللہ تعالى كے علاوہ دوسروں كو اپنا ولى بنا ركھا ہے، اور كہتے ہيں كہ ہم ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ بزرگ اللہ تعالى كے قرب تك ہمارى رسائى كرا ديں} الزمر ( 3 ).
    جشن ميلاد منانے والوں كے شبہ كا مناقشہ:
    اس بدعت كو منانے كو جائز سمجھنے والوں كا ايك شبہ ہے جو مكڑى كے جالے سے بھى كمزور ہے، ذيل ميں اس شبہ كا ازالہ كيا جاتا ہے:
    1 - ان بدعتيوں كا دعوى ہے كہ: يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و تكريم كے ليے منايا جاتا ہے:
    اس شبہ كا جواب:
    اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے ان كے فرماين پر عمل پيرا ہوا جائے، اور جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كيا جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى جائے.
    بدعات و خرافات پر عمل كرنا، اور معاصى و گناہ كے كام كرنے ميں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم نہيں، اور جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بھى اسى مذموم قبيل سے ہے كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے زيادہ تعظيم اور عزت كرنے والے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين تھے جيسا كہ عروۃ بن مسعود نے قريش كو كہا تھا:
    ( ميرى قوم كے لوگو! اللہ تعالى كى قسم ميں بادشاہوں كے پاس بھى گيا ہوں اور قيصر و كسرى اور نجاشى سے بھى ملا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كسى بھى بادشاہ كے ساتھيوں كواس كى اتنى عزت كرتے ہوئے نہيں ديكھا جتنى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى كرتے ہيں، اللہ كى قسم اگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم تھوكتے ہيں، تو وہ تھوك بھى صحابہ ميں سے كسى ايك كے ہاتھ پر گرتى ہے، اور وہ تھوك اپنے چہرے اور جسم پر مل ليتا ہے، اور جب وہ انہيں كسى كام كا حكم ديتے ہيں تو ان كے حكم پر فورا عمل كرتے ہيں، اور جب محمد صلى اللہ عليہ وسلم وضوء كرتے ہيں تو اس كے ساتھى وضوء كے پانى پر ايك دوسرے سے جھگڑتے ہيں، اور جب اس كے سامنے بات كرتے ہيں تو اپنى آواز پست ركھتے ہيں، اور اس كى تعظيم كرتے ہوئے اسے تيز نظروں سے ديكھتے تك بھى نہيں"
    صحيح بخارى شريف ( 3 / 178 ) حديث نمبر ( 27 31 ) اور ( 2732 )، اور فتح البارى ( 5 / 388 ).
    اس تعظيم كے باوجود انہوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم پيدائش كو جشن اور عيد ميلاد كا دن نہيں بنايا، اگر ايسا كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كبھى بھى اس كو ترك نہ كرتے.
    2 - يہ دليل دينا كہ بہت سے ملكوں كے لوگ يہ جشن مناتے ہيں:
    اس كے جواب ميں ہم صرف اتنا كہيں گے كہ: حجت اور دليل تو وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو عمومى طور پر بدعات كى ايجاد اور اس پر عمل كرنے كى نہى ثابت ہے، اور يہ جشن بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.
    جب لوگوں كا عمل كتاب و سنت كى دليل كے مخالف ہو تو وہ عمل حجت اور دليل نہيں بن سكتا چاہے اس پر عمل كرنے والوں كى تعداد كتنى بھى زيادہ كيوں نہ ہو:
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {اگر آپ زمين ميں اكثر لوگوں كى اطاعت كرنے لگ جائيں تو وہ آپ كو اللہ تعالى كى راہ سے گمراہ كر ديں گے}الانعام ( 116 ).
    اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ الحمد للہ ہر دور ميں بدعت كو ختم كرنے اور اسے مٹانے اور اس كے باطل كو بيان كرنے والے لوگ موجود رہے ہيں، لہذا حق واضح ہو جانے كے بعد كچھ لوگوں كا اس بدعت پر عمل كرتے رہنا كوئى حجت اور دليل نہيں بن جاتى.
    اس جشن ميلاد كا انكار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى معروف كتاب" اقتضاء الصراط المستقيم" ميں اور امام شاطبى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب" الاعتصام" ميں اور ابن الحاج نے " المدخل" ميں اور شيخ تاج الدين على بن عمر اللخمى نے تو اس كے متعلق ايك مستقل كتاب تاليف كى ہے، اور شيخ محمد بشير السھوانى ھندى نے اپنى كتاب " صيانۃ الانسان" ميں اور سيد محمد رشيد رضا نے بھى ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور شيخ محمد بن ابراہيم آل شيخ نے بھى اس موضوع كے متعلق ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور جناب فضيلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى اور ان كے علاوہ كئى ايك نے بھى اس بدعت كے بارہ ميں بہت كچھ لكھا اور اس كا بطلان كيا ہے، اور آج تك اس كے متعلق لكھا جا رہا ہے، بلكہ ہر برس اس بدعت منانے كے ايام ميں اخبارات اور ميگزينوں اور رسلائل و مجلات ميں كئى كئى صفحات لكھے جاتے ہيں.
    3 - جشن ميلاد منانے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد كا احياء ہوتا ہے.
    اس كے جواب ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:
    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تو ہر مسلمان شخص كے ساتھ تجديد ہوتى رہتى ہے اور مسلمان شخص تو اس سے ہر وقت مرتبط رہتا ہے، جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اذان ميں آتا ہے يا پھر اقامت ميں يا تقارير اور خطبوں ميں، اور وضوء كرنے اور نماز كى ادائيگى كے بعد جب كلمہ پڑھا جاتا ہے، اور نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے وقت بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہوتى ہے.
    اور جب بھى مسلمان شخص كوئى صالح اور واجب و فرض يا پھر مستحب عمل كرتا ہے، جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے، تو اس عمل سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ ہوتى ہے، اور عمل كرنے والے كى طرح اس كا اجر بھى ان تك پہنچتا ہے...
    تو اس طرح مسلمان شخص تو ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ كرتا رہتا ہے، اور پورى عمر ميں دن اور رات كو اس سے مربوط ركھتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيا ہے، نہ كہ صرف جشن ميلاد منانے كے ايام ميں ہى ، اور پھر جبكہ يہ جشن ميلاد يا جشن آمد رسول منانا بدعت اور ناجائز ہے تو پھر يہ چيز تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہميں دور كرتى ہے نہ كہ نزديك اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اس سے برى ہيں.
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس بدعتى جشن كى كوئى ضرورت نہيں وہ اس سے بے پرواہ ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے ان كى تعظيم كے ليے وہ كام مشروع كيے ہيں جن ميں ان كى عزت و توقير ہوتى ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
    {اور ہم نے آپ كا ذكر بلند كر ديا} الشرح ( 4 ).
    تو جب بھى اذان ہو يا اقامت يا خطبہ اس ميں جب اللہ تعالى كا ذكر ہوتا ہے تو اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر لازمى ہوتا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت و تعظيم اور ان كى عزت و تكريم اور توقير كى تجديد كے ليے اور ان كى اتباع و پيروى كرنے پر ابھارنے كے ليے كافى ہے.
    اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد فرقان حميد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كو احسان قرار نہيں ديا بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كو احسان اور انعام قرار ديا ہے.
    ارشاد بارى تعالى ہے:
    {يقينا اللہ تعالى نے مومنوں پر احسان اور انعام كيا جب ان ميں سے ہى ايك رسول ان ميں مبعوث كيا}آل عمران ( 164 ).
    اور ايك مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا:
    {اللہ وہى ہے جس نے اميوں ميں ان ميں سے ہى ايك رسول مبعوث كيا} الجمعۃ ( 2 ).
    4 - اور بعض اوقات وہ يہ بھى كہتے ہيں:
    ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كى ايجاد تو ايك عادل اور عالم بادشاہ نے كى تھى اور اس كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا تھا!
    اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:
    بدعت قابل قبول نہيں چاہے وہ كسى سے بھى سرزد ہو، اور اس كا مقصد كتنا بھى اچھا اور بہتر ہى كيوں نہ ہو، اچھے اور بہتر مقصد سے كوئى برائى كرنا جائز نہيں ہو جاتى، اور كسى كا عالم اور عادل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ معصوم ہے.
    5 - ان كا يہ كہنا كہ: جشن ميلاد النبى بدعت حسنۃ ميں شمار ہوتى ہے، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وجود پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى خبر ديتى ہے.
    اس كا جواب يہ ہے كہ:
    بدعت ميں كوئى چيز حسن نہيں ہے بلكہ وہ سب بدعت ہى شمار ہوتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
    صحيح بخارى ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ديكھيں فتح البارى ( 5 / 355 ).
    اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
    " يقينا ہر بدعت گمراہى ہے"
    اسے امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 126 ) اور امام ترمذى نے جامع ترمذى حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے.
    تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب بدعتوں پر گمراہى كا حكم صادر كر ديا ہے اور يہ كہتا ہے كہ سارى بدعتيں گمراہى نہيں بلكہ كچھ بدعتيں حسنہ بھى ہيں

  10. #10
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    حافظ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شرح الاربعين ميں كہتے ہيں:
    ( رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " ہر بدعت گمراہى ہے" يہ جوامع الكلم ميں سے ہے، اس سے كوئى چيز خارج نہيں، اور يہ دين كے اصولوں ميں سے ايك عظيم اصول ہے، اور يہ بالكل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى قول كى طرح اور شبيہ ہے:
    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
    اسے بخارى نے ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 355 ).
    لھذا جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ) انتہى.
    ديكھيں: جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233 ).
    اور ان لوگوں كے پاس بدعت حسنہ كى اور كوئى دليل نہيں سوائے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا نماز تراويح كے متعلق قول ہى ہے، جس ميں انہوں نے كہا تھا:
    ( نعمت البدعۃ ھذہ ) يہ طريقہ اچھا ہے. اسے بخارى نے تعليقا بيان كيا ہے، ديكھيں: صحيح بخارى شريف ( 2 / 252 ) حديث نمبر ( 2010 ) ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 294 ).
    جشن ميلاد منانے والوں كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
    كچھ ايسى نئى اشياء ايجاد كى گئى جن كا سلف نے انكار نہيں كيا تھا: مثلا قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنا، اور حديث شريف كى تحرير و تدوين.
    اس كا جواب يہ ہے كہ:
    ان امور كى شريعت مطہرہ ميں اصل ملتى ہے، لہذا يہ كوئى بدعت نہيں بنتے.
    اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول " يہ طريقہ اچھا ہے" ان كى اس سے مراد لغوى بدعت تھى نہ كہ شرعى، لہذا جس كى شريعت ميں اصل ملتى ہو تو اس كى طرف رجوع كيا جائے گا.
    جب كہا جائے كہ: يہ بدعت ہے تو يہ لغت كے اعتبار سے بدعت ہو گى نہ كہ شريعت كے اعتبار سے، كيونكہ شريعت ميں بدعت اسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہ ملتى ہو جس كى طرف رجوع كيا جا سكے.
    اور قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنے كى شريعت ميں دليل ملتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد لكھنے كا حكم ديا كرتے تھے، ليكن قرآن جدا جدا اور متفرق طور پر لكھا ہوا تھا، تو صحابہ كرام نے اس كى حفاظت كے ليے ايك كتاب ميں جمع كر ديا.
    اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو چند راتيں تراويح كى نماز پڑھائى تھى، اور پھر اس ڈر اور خدشہ سے چھوڑ دى كے كہيں ان پر فرض نہ كر دى جائے، اور صحابہ كرام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں عليحدہ عليحدہ اور متفرق طور پر ادا كرتے رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى اسى طرح ادا كرتے رہے، يہاں تك كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا، جس طرح وہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے تھے، اور يہ كوئى دين ميں بدعت نہيں ہے.
    اور حديث لكھنے كى بھى شريعت ميں دليل اور اصل ملتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ احاديث بعض صحابہ كرام كو ان كے مطالبہ پر لكھنے كا حكم ديا تھا.
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں احاديث عمومى طور پر اس خدشہ كے پيش نظر ممنوع تھيں كہ كہيں قرآن مجيد ميں وہ كچھ نہ مل جائے جو قرآن مجيد كا حصہ نہيں، لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ ممانعت جاتى رہى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل قرآن مجيد مكمل ہو گيا اور لكھ ليا گيا تھا، اور اسے احاطہ تحرير اور ضبط ميں لايا جا چكا تھا.
    تو اس كے بعد مسلمانوں نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے ليے احاديث كى تدوين كى اور اسے لكھ ليا، اللہ تعالى انہيں اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے جزائے خير عطا فرمائے كہ انہوں نے اپنے رب كى كتاب اور اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ضائع ہونے اور كھيلنے والوں كے كھيل اور عبث كام سے محفوظ كيا.
    اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ:
    تمہارے خيال اور گمان كے مطابق اس شكريہ كى ادائيگى ميں تاخير كيوں كى گئى، اور اسے پہلے جو افضل ادوار كہلاتے ہيں، يعنى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور تبع تابعين كے دور ميں كيوں نہ كيا گيا، حالانكہ يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ اور شديد محبت ركھتے تھے، اور خير و بھلائى كے كاموں اور شكر ادا كرنے ميں ان كى حرص زيادہ تھى، تو كيا جشن ميلاد كى بدعت ايجاد كرنے والے ان سے بھى زيادہ ہدايت يافتہ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے والے تھے؟ حاشا و كلا ايسا نہيں ہو سكتا.
    6 - اور بعض اوقات وہ يہ كہتے ہيں كہ : جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ظاہر كرتا ہے، اور يہ اس محبت كے مظاہر ميں سے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا اظہار كرنا مشروع اور جائز ہے !
    اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:
    بلاشك و شبہ ہر مسلمان شخص پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت واجب ہے، اور يہ محبت اپنى جان، مال اور اولاد اور والد اور سب لوگوں سے زيادہ ہونى چاہيے- ميرے ماں باپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں - ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم ايسى بدعات ايجاد كر ليں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مشروع بھى نہ كى ہوں.
    بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو يہ تقاضا كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے اور ان كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مظاہر ميں سے سب عظيم ہے، كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:
    اگر تيرى محبت سچى ہوتى تو اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا، كيونكہ محبت كرنے والا اپنے محبوب كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا ہے.
    لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا تقاضا ہے كہ ان كى سنت كا احياء كيا جائے، اور سنت رسول كو مضبوطى سے تھام كر اس پر عمل پيرا ہوا جائے، اور افعال و اقوال ميں سے جو كچھ بھى سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كا مخالف ہو اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے بچا جائے.
    اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو كام بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے خلاف ہے وہ قابل مذمت بدعت اور ظاہرى معصيت و گناہ كا كام ہے، اور جشن آمد رسول يا جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم وغيرہ بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.
    چاہے نيت كتنى بھى اچھى ہو اس سے دين اسلام ميں بدعات كى ايجاد جائز نہيں ہو جاتى، كيونكہ دين اسلام دو اصلوں پر مبنى ہے اور اس كى اساس دو چيزوں پر قائم ہے: اور وہ اصول اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ہے.
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {سنو! جو بھى اپنے آپ كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سامنے جھكا دے بلا شبہ اسے اس كا رب پورا پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو كوئى خوف ہو گا، اور نہ ہى غم اور اداسى} البقرۃ ( 112 ).
    تو اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا اللہ تعالى كے ليے اخلاص ہے، اور احسان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سنت پر عمل كرنے كا نام ہے.
    7 - ان كے شبھات ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ يہ كہتے ہيں:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے احياء اور اس جشن ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت پڑھنے ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و پيروى پر ابھارنا ہے !
    اس كے جواب ميں ہم ان سے يہ كہيں گے كہ:
    مسلمان شخص سے مطلوب تو يہ ہے كہ وہ سارا سال اور سارى زندگى ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت كا مطالعہ كرتا رہے، اور يہ بھى مطلوب ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى بھى ہر وقت اور ہر كام ميں كرے.
    اب اس كے ليے بغير كسى دليل كے كسى دن كى تخصيص كرنا بدعت شمار ہو گى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " اور ہر بدعت گمراہى ہے "
    اسے احمد نے ( 4 / 164 ) اور ترمذى نے حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے.
    اور پھر بدعت كا ثمر اور نتيجہ شر اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دورى كے سوا كچھ نہيں ہوتا.
    خلاصہ يہ ہوا كہ:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ہو يا جشن آمد رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كى سارى اقسام و انواع اور اشكال و صورتيں بدعت منكرہ ہيں مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ اس بدعت سے بھى باز رہيں اور اس كے علاوہ دوسرى بدعات سے بھى اجتناب كريں، اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا احياء كريں اور سنت كى پيروى كرتے رہيں، اور اس بدعت كى ترويج اور اس كا دفاع كرنے والوں سے دھوكہ نہ كھائيں، كيونكہ اس قسم كے لوگ سنت كے احياء كى بجائے بدعات كے احياء كا زيادہ اہتمام كرتے ہيں، بلكہ اس طرح كے لوگ تو ہو سكتا ہے سنت كا بالكل اہتمام كرتے ہى نہيں.
    لہذا جس شخص كى حالت يہ ہو جائے تو اس كى تقليد اور اقتدا كرنى اور بات ماننى جائز نہيں ہے، اگرچہ اس طرح كے لوگوں كى كثرت ہى كيوں نہ ہو، بلكہ بات تو اس كى تسليم جائے گى اور اقتدا اس كى كرنى چاہيے جو سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہو اور سلف صالحين كے نھج اور طريقہ پر چلنے والا ہو، اگرچہ ان كى تعداد بہت قيل ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ حق كى پہچان آدميوں كے ساتھ نہيں ہوتى، بلكہ آدمى كى پہچان حق سے ہوتى ہے.
    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " بلاشبہ تم ميں سے جو زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت زيادہ اختلافات كا مشاہدہ كرے گا، لہذا تم ميرى اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ كى پيروى اور اتباع كرنا، اسے مضبوطى سے تھامے ركھنا، اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے"
    ديكھيں: مسند احمد ( 4 / 126 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676 ).
    اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ بتا ديا ہے كہ اختلاف كے وقت ہم كسى كى اقتدا كريں، اور اسى طرح يہ بھى بيان كيا كہ جو قول اور فعل بھى سنت كے مخالف ہو وہ بدعت ہے، اور ہر قسم كى بدعت گمراہى ہے.
    اور جب ہم جشن ميلاد النبى كو كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں، تو ہميں اس كى نہ تو كوئى دليل سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ملتى ہے اور نہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ ميں، تو پھر يہ كام نئى ايجاد اور گمراہ بدعات ميں سے ہے.
    اور اس حديث ميں پائے جانے والے اصول كى دليل كتاب اللہ ميں بھى پائى جاتى ہے.
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كر بيٹھو تو اسے اللہ تعالى اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر اور انجام كے اعتبار سے بہت اچھا ہے} النساء ( 59 ).
    اللہ تعالى كى طرف لوٹانا يہ ہے كہ كتاب اللہ كى طرف رجوع كيا جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا مطلب يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد اسے سنت پر پيش كيا جائے.
    تو اس طر تنازع اور اختلاف كے وقت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف رجوع كيا جائے گا، لھذا كتاب اور سنت رسول صلى اللہ عليہ ميں جشن ميلاد النبى كى مشروعيت كہاں ملتى ہے، اور اس كى دليل كہاں ہے؟
    لہذا جو بھى اس فعل كا مرتكب ہو رہا ہے يا وہ اسے اچھا سمجھتا ہے اسے اللہ تعالى كے ہاں اس كے ساتھ ساتھ دوسرى بدعات سے بھى توبہ كرنى چاہيے، اور حق كا اعلان كرنے والے مومن كى شان بھى يہى ہے، ليكن جو شخص متكبر ہو اور دليل مل جانے كے بعد اس كى مخالفت كرے اس كا حساب اللہ تعالى كے سپرد.
    اس سلسلہ ميں اتنا ہى كافى ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں روز قيامت تك كتاب و سنت پر عمل كرنے اور اس پر كاربند رہنے كى توفيق بخشے، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اوران كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
    ديكھيں: كتاب حقوق النبى صلى اللہ عليہ وسلم بين الاجلال و الاخلال صفحہ نمبر ( 139 ).
    الشيخ ڈاكٹر صالح بن فوزان الفوزان، ممبر كبار علماء كرام كميٹى سعودى عرب.

  11. #11
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default j

    Quote ALLAH'S SLAVE said: View Post
    جشن ميلاد النبى كا .
    اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں،
    Salam janab ALLAH'S SLAVE


    aap ny jo ye elzam lagaya hai na ye aap logo ki begerti hai aur kuch nahi aap ko sharam aaji chahey aap ny kami melad ki mehfel main sherkat ki hai jab aap ny sherkat hi nahi ki to aap ye kesy keh sakty hai aap log to hai hi gustakhy RASOOL ho shaharam keya karo estarhan k lag use karty hovy

  12. #12
    Join Date
    23 Nov 2006
    Location
    Rawalpindi
    Age
    43
    Posts
    6,234
    Threads
    306
    Credits
    1,029
    Thanked
    0

    Default j

    Quote ALLAH'S SLAVE said: View Post

    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
    اسے بخارى نے ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 355 ).
    لھذا جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ) انتہى.
    ديكھيں: جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233 ).
    .
    عید میلادالنبی ﷺ کا ثبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

    از: مفتی احمدالقادری مصباحی


    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    ہر مسرت ہر خوشی کی جان عیدمیلادالنبی
    عید کیا ہے عید کی بھی شان عیدمیلادالنبی
    ساعت اعلٰی و اکرم عید میلادالنبی
    لمحہء انوار پیہم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم

    دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے یہ عظیم خوشی کا دن ہے۔ اسی دن محسن انسانیت، خاتم پیغمبراں، رحمت دو جہاں، انیس بیکراں، چارہ ساز درد منداں، آقائے کائنات، فخر موجودات، نبیء اکرم، نور مجسم، سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خاکدان گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کی بعثت اتنی عظیم نعمت ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی نعمت اور بڑی سے بڑی حکومت بھی نہیں کر سکتی۔ آپ قاسم نعمت ہیں، ساری عطائیں آپ کے صدقے میں ملتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:


    انما انا قاسم واللہ یعطی۔ میں بانٹتا ہوں اور اللہ دینا ہے۔ (بخاری و مسلم)

    اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر اپنا احسان جتایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔

    لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا۔
    بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن، سورۃ3 آیت164)

    انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی ولادت کا دن سلامتی کا دن ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام فرماتے ہیں:

    وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا۔ (سورۃ19 آیت33)

    دوسری جگہ حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے باری تعالٰی کا ارشاد ہے:

    سلامتی ہے ان پر جس دن پیدا ہوئے۔ (قرآن کریم سورہ19 آیت15)

    ہمارے سرکار تو امام الانبیاء و سیدالمرسلین اور ساری کائنات سے افضل نبی ہیں۔ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ کا یوم میلاد کیوں نہ سلامتی اور خوشی کا دن ہوگا۔ بلکہ پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنی ولادت کی خوشی تو خود سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے منائی اور ان کی اتباع، صحابہءکرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین رضوان اللہ علیہم اجمعین کرتے آئے اور آج تک اہل محبت کرتے آ رہے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:

    نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کرکے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف)

    دوسرے حدیث میں ہے:

    رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزے کا سبب پوچھا گیا، فرمایا اسی میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ (مسلم شریف)

    نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) نے آکر ابولہب کو ولادت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خبر دی۔ ابولہب سن کر اتنا خوش ہوا کہ انگلی سے اشارہ کرکے کہنے لگا، ثوبیہ! جا آج سے تو آزاد ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں پوری سورہ لہب نازل ہوئی ایسے بدبخت کافر کو میلاد نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے موقع پر خوشی منانے کا کیا فائدہ حاصل ہوا امام بخاری کی زبانی سنئیے:

    جب ابولہب مرا تو اس کے گھر والوں (میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے اس کو خواب میں بہت برے حال میں دیکھا۔ پوچھا، کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے علیحدہ ہو کر مجھے خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے (اس کلمے کی) انگلی سے پانی ملتا ہے جس سے میرے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے کیوں کہ میں نے (اس انگلی کے اشارے سے) ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔

    حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (958ھ متوفی 1052ھ) جو اکبر اور جہانگیر بادشاہ کے زمانے کے عظیم محقق ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:
    اس واقعہ میں میلادشریف کرنے والوں کے لئے روشن دلیل ہے جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شب ولادت خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب جو کافر تھا، جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے اس کو انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں محبت سے بھر پور ہو کر مال خرچ کرتا ہے اور میلاد شریف کرتا ہے۔ (مدارج النبوۃ دوم ص26)

    نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کی طرف سے بہت بڑی رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔

    وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین۔
    اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ21، آیت107)

    اور رحمت الٰہی پر خوشی منانے کا حکم تو قرآن مقدس نے ہمیں دیا ہے:

    قل بفضل اللہ و برحمۃ فبذلک فلیفرحوا۔
    تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں۔ ( کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ10، آیت58 )

    لٰہذا میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جتنی بھی جائز خوشی و مسرت اور جشن منایا جائے قرآن و حدیث کے منشا کے عین مطابق ہے بدعت سیئہ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایسا اچھا اور عمدہ طریقہ ہے جس پر ثواب کا وعدہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے:

    من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھامن بعدہ من غیران ینقص من اجورھم شئی۔
    جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان کا ثواب بھی اسے ملے گا جو اس کے بعد اس نئے طریقے پر عمل کریں گے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔ (مسلم شریف)


Page 1 of 3 123 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 10
    Last Post: 5th November 2016, 10:59 PM
  2. Replies: 19
    Last Post: 2nd August 2015, 04:28 PM
  3. Replies: 9
    Last Post: 5th September 2013, 12:37 PM
  4. Replies: 5
    Last Post: 8th December 2011, 06:59 AM
  5. Replies: 2
    Last Post: 31st May 2010, 12:57 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •