افغانستان کی گہری دلدل میں پھنسا بیچارہ نیٹو
15 فروری2009ء کو ٹھیک بیس سال پہلے افغانستان سے باقی ماندہ روسی فوجی سامان باندھ کر بوجھل قدموں چل دئیے تھے۔ سوویت یونین نے افغانستان میں پورے نوسال بِتائے، پندرہ ہزار فوجی مروادیے مگر افغان مجاہدین کو شکست تو کیا دیتے کچھ عرصے بعد اُن کے اپنے ہی ملک کا شیرازہ بکھر گیا۔ آج بیس سال بعد افغانستان میں’امریکی جنگ‘ کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں! دو ہفتے قبل جب رچرڈ ہالبروک افغانستان میں نئے امریکی مندوب (سفیر سے نچلا درجہ) کی حیثیت میں افغان دورے پر آئے تھے تو ان کے ذہن میں شایدروسی انخلاء کی بیسویں’ سالگرہ‘ کاخیال نہ گزرا ہو مگر افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کواب اتنا ہی وقت ہو چلا ہے جتنے وقت میں بیس سال پہلے روس بالآخر پچھاڑ کھا کر بوریا بستر لپیٹ کر نکلنے کی کر رہا تھا۔ جبکہ امریکہ اور ناٹو افغانستان میں مزید فوجی جھونکنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔اور اگر اوبامہ کے ،مزید تیس ہزارامریکی فوجیوں کے ساتھ ناٹو کی مزید مددحاصل کرنے کے ارادے کامیاب ہوجاتے ہیں تو115000 فوجیوں کی یہ تعداد اتنی ہی ہو جائے گی جتنی روس نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے وقت یہاں جھونکی تھی۔اگرچہ ان دو نئے غاصبوں کی ہلاکتوں کی تعداد روس سے کچھ کم ہے مگر کامیابی نامی کسی چیز کے کوئی آثار دور دور تک ان بیچاروں کے نصیب میں نظر نہیں آرہے! روس تو بدقت تمام اپنے آنسو چھپاتے یہاں سے اپنی شکست کو جنیوا کے کسی نام نہاد معاہدے کا نام دینے کی سعی ِلا حاصل کرتے رخصت ہو چلا تھا مگر ناٹو کو روس سے بھی گھمبیرتر مسائل کا سامنا ہے۔ پہلے تومجاہدین کو کوئی ’بیرونی‘مدد بھی حاصل تھی مگر اب توان کی خودانحصاری ہی امریکہ و ناٹو کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے۔مزید فوجیں بھیجنے کا ارادہ شاید کچھ وقتی رنگ لے آئے مگر حال ہی کے گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے خزانوں پربھاری بوجھ ہی ثابت ہوگا (اوریہ بات تو وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کے مقرر کردہ مہنگے مُرتشی اور بد عنوان افسران اس میں سے موٹا حصہ لے اڑیں گے!)
Bookmarks