اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میں
قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکهف، 18 : 28)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ اللہ تعالی کے اولیا اپنے مراتب و منزلت کے مطابق ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصوروں کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہے اور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا. (الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند
اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟
یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔
ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہے
اللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo(شوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔
آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔
اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔
بخدا خدا کا یہی ہے در
ربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ. (النساء، 4 : 80)
جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔
Bookmarks